سیاسی بازار کو پھر چمکایا جارہا ہے!!!

0
36
حیدر علی
حیدر علی

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نہیں بلکہ کہانی پھر دہرا رہی ہے، ہر کوئی اپنا نمبر بڑھانے کیلئے مینڈک کی طرح پانی سے اپنا سر نکال کر ٹر ٹرکرنے لگا ہے،پاکستان کے سابق کرکٹر قاسم عمر بھی اپنی قسمت آزمانے کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف ایک بیان داغ دیا، ظاہر ہے اُنہیں بھی کسی وزیر نے یہ آسرا دلا دیا ہوگا کہ پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی جانے والے ہیں ، چمچہ گیری کے ساتھ ساتھ اپنی درخواست بھی وزیراعظم کو بھیج دو، قاسم عمر کو اپنے سابق کپتان عمران خان کے خلاف کوئی خامی نظر نہ آئی تو اُنہوں نے اُن پر یہ الزام لگادیا کہ وہ اپنے دورکپتانی میں دوسرے کھلاڑیوں سے بدتمیزی اور بد اخلاقی سے بات چیت کیا کرتے تھے،قاسم عمر کی پیدائش کینیا کی ہے اور اُنہیں پاکستان کی قومی ٹیم میں صرف اِس لئے شامل کیا گیا تھا کیونکہ وہ بلیک تھے اور اُن کی شمولیت سے غیرملکیوں میں یہ تاثر پیدا ہوسکے کہ پاکستان میں کالے لوگ بھی رہتے ہیں، وہ افغانستان کی طرح صرف گوروں اور نسوار کھانے والے لوگوں کا ملک نہیں ہے بعد ازاں اُنہیں اسپاٹ فکسنگ کے اقبال جرم کرنے پر ٹیم سے برطرف کردیا گیا تھا،وہ نصف صدی تک اِس انتظار میں بیٹھے رہے کہ کب وہ اپنی برطرفی کا انتقام کسی سے لے سکیں،بدقسمتی اُن کے کپتان اپنی زندگی کے ایک اہم سیاسی مدوجزر سے نبرد آزما ہیںاور عمران خان ہی اُن کا نشانہ بن گئے لیکن یہ بھی عمران خان کی ایک خوش قسمتی ہے کہ کسی اور سابق کرکٹر نے اُن پر گالی گلوچ کا الزام لگانے کے بجائے اُن کی شائستگی ، پروفیشنلزم اور تعصب سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرنے کی تعریف ہی کی ہے، قاسم عمر اسپاٹ فکسنگ سے مال بنانے کے بجائے اب سیاست فکسنگ کا دھندا شروع کردیا ہے، لیکن عمران خان کو اُن جیسے لوگوں سے کوئی سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں،شومئی قسمت کہ روزانہ کی بنیاد پر تحریک انصاف کے کارکنوں پر نت نئے مقدمات قائم کئے جارہے ہیں ، کراچی میں تحریک انصاف کے ایک بزرگ رہنما کو گاڑی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، بزرگ رہنما نے جب یہ عذر پیش کیا کہ جس گاڑی کو چوری کرنے کا الزام ہے وہ تو اُن ہی کی ملکیت ہے، تھانے کے ایس ایچ او نے جوابا” عرض کیا کہ اُن کے بیٹے ہی نے گاڑی چوری ہونے کی رپورٹ درج کرائی تھی، خوش قسمتی سے اُنکا بیٹا 20 سال سے امریکا میں مقیم ہے۔امریکا سے ہی چند نوجوان تحریک انصاف کی جدوجہد میں شرکت کیلئے پاکستان گئے تھے، اُن کی پاکستان آمد کے تین دِن بعد ہی اُنہیں وہاں نذر زنداں کردیا گیا، اُنکے وکیل نے جب اُن کی ضمانت کیلئے عدالت سے رجوع کیا تو اُسے بتایا گیا کہ جس قانون کے تحت اُن نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے اُس کا فی الحال کوئی وجود ہی نہیں لہٰذا جب قانون پاس ہوگا تب اُن پر مقدمات درج کئے جائینگے اور اُن کی ضمانت ممکن ہوگی، فی الحال وہ جیل میں رہیں اور عیش کریں۔معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف جلد ہی ایک قانون سمندر پار پاکستانیوں کو گرفتار کرنے کا ایک بِل اسمبلی میں پیش کرنے والے ہیں،اُن کے پیش نظر وہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج کرتے ہیں،پاکستان میں پولیس جب تحریک انصاف کے کارکنوں کو گرفتار کرنے اُن کے گھر جاتی ہے اور وہ گھر پر موجود نہیں ہوتے تو کارکن کے والد یا بھائی کو گرفتار کرکے تھانہ لے آتی ہے، پولیس کا موقف یہ ہوتا ہے کہ جب کارکن گرفتاری پیش کرینگے تو اُنہیں رہا کردیا جائیگا تاہم جب ایک گھر میں پولیس تحریک انصاف کے ایک کارکن کو گرفتار کرنے گئی تو وہاں ایک خاتون اور بچوں کے علاوہ اور کوئی موجود نہ تھا، پولیس والے خاتون کو اٹھاکر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن خاتون نے اپنی سینڈل سے
پولیس والوں کی پٹائی کردی، خاتون کے شور شرابہ سُن کے محلے والے بھی جمع ہوگئے اور پولیس پر سنگباری شروع کردی، پولیس منھ لٹکائے اُس گھر سے واپس لوٹ آئی۔
بہرنوع جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ کہانی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ، من وعن درست ہے. شہرہ آفاق اخبار روزنامہ جنگ کی عوام دشمن پالیسی جو اِس کا طرہ امتیاز ہے آج پھر عود آئی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جس ناٹک کوروزنامہ جنگ نے 1977 ء کے مارشل لاء کے بعد شروع کیا تھا وہ ناقابل فراموش ہے، اُس وقت روزنامہ جنگ کے مدیر میر شکیل الرحمن تھے، شاید ہی کوئی دِن ایسا گذرتا ہو جب مذکورہ اخبار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو (شہید ) کے خلاف کوئی من گھڑت اور جھوٹی خبر کو اپنے اخبار کی زینت بنانے سے فرد گذاشت نہ کیا ہو،شہید ذوالفقار علی بھٹو جیل کی کوٹھری سے ہاتھ جوڑ کر میر شکیل الرحمن سے درد مندانہ گذارش کرتے، اور کہتے تھے کہ اے میر شکیل الرحمن ! تم یہ نہ بھولو کہ تمہیں اور ہمیں اِسی سندھ کی دھرتی میں رہنا ہے ، دشمنی کی آگ کو اتنا نہ پھیلاؤ اِس دھرتی کی سرزمین ہم دونوں کیلئے تنگ ہوجائے۔
آج روزنامہ جنگ کا مطالعہ کریں تو اُس وقت کے اخبار اور آج کے اخبار میں کوئی فرق نظر نہ آئیگا، آج بھی سارا اخبار پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کے خلاف بے بنیاد ، من گھڑت اور جھوٹی خبروں سے بھرا ہوتاہے ، شائع ہونے والے کارٹون بھی جو اخلاق سوز ہوتے ہیں ،عمران خان کے خلاف شائع کئے جاتے ہیں اور ایرے غیرے جیسے قاسم عمر کا بیان جو عمران خان کے خلاف ہو شہ سرخی کے ساتھ لگادیا جاتا ہے لہٰذا حالات واضح ہورہے ہیں کہ کہانی پھر دہرائی جارہی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here