انسانی جانیں اور آئین شکنی!!!

0
84

پاک آرمی کو سلام، شہدا وطن کو سلام۔ آئین شکن ، قبضہ مافیا ، اور ڈکٹیٹر جرنیلوں پر لعنت۔ جن کی وجہ سے ملک دو لخت ہواجنہوں نے بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور کشمیر میں امن نہیں ہونے دیا۔ ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔ ملکی سیاست پر قابض ہیں، پارلیمنٹ ،سینٹ ،کشمیر کمیٹی کے چیئرمین، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ جن کی مرضی کے بغیر نہیں لگایا جاتا۔ناانصافی کا سمبل ۔ کرپشن کے محافظ اور چوروں کے پشت بان، جرنیلوں پر ایک سو بار لعنت۔ انسانوں کے معاشرہ میں انصاف اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار انسانوں کے پاس ہے یا درندوں کے۔ جن معاشروں میں انصاف نہ ہو وہاں نو مئی جیسے واقعات کوئی انہونی بات نہیں۔ لعنت ہے ایسے جرنیلوں اور ایسے لیڈروں پر جو بہو بیٹیوں کی ننگی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ آج میاں بیوی ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ انکی آڈیوز نہ آجائیں ۔ننگی ویڈیوز کا دھندہ بند ہونا چاہیے جو لوگ پی ٹی آئی کے ورکرز کو زبردستی ٹی وی پر لا کر سیاست سے کنارہ کشی کروا رہے ہیں۔ یہ لوگ خود سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ستر سال سے سیاست کررہے ہیں۔ ملک کو تباہ کردیا ہے۔ خدارا اب تو جان چھوڑ دیں۔ وگرنہ نو مئی کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ حالیہ دنوں میں ماضی کی تاریخ کو دھرایا جارہاہے۔ پی ٹی آئی کو بین کرنے کی حتی المقدور کوششیں ہورہی ہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی، اے این پی پر بھی پابندی لگ چکی ہے۔ ان ادوار میں پابندی آمریت نے لگائی ۔ موجودہ دور میں اسٹیبلشمنٹ سیاسی حکومت کے ذریعے لگوانے کی کوشش میں ہے۔ جس میں انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی۔اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کیطرف سے طاقت کا نگا ناچ جاری ہے۔ کردہ یا ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچنے کے لئے فوج کی حمایت میں بیان ۔ سو گناہ معاف۔ نہ کسی عدالت کا سامنا اور نہ کوئی گھس کے مارے گا۔شاہانہ ٹی وی کوریج بھی دی جائے گی۔ پی ٹی آئی کو کچلنے کا طریقہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور کھلی فسطائیت ہے۔ یاد رکھیں تاریخ نے کوفیوں کو اور ان جیسے طرز عمل کو معاف نہیں کیا۔ پنجاب پولیس کی غیرت مندی کھل کر سامنے آگئی۔ * پریس کانفرنس کریں ۔ پاکستان مضبوط کریں؟*پی ٹی آئی سے لا تعلقی کا اعلان کریں ۔ آپ کے سب گناہ معاف۔ *عمران خان سے بغاوت کریں ۔ آپکی شلوار نہیں اترے گی۔ اگر آپ ننگا نہیں ہو چاہتے ۔ پریس کانفرنس کریں۔نوکری کے لئے پنجاب پولیس کا عزت و آبرو کو پامال کرنا ۔ اتنی سفاکی، درندگی اور بے حیائی کشمیر اور فلسطین میں دیکھی گئی تھی ۔ پنجاب پولیس نے بربرئیت کی تاریخ رقم کردی۔ بے حیائی ،بے شرمی اور بدنصیبی ،مہنگائی نے غریب کی بچی کو بکنے پر مجبور کردیا۔ ہمیں آزاد ہوئے ساڑھے سات دہائیاں گزر گئیں، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اورہم لوگوں کو ننگا کررہے ہیں، چادر اور چاردیواری کو پامال کررہے ہیں۔ زبردستی وفاداریاں تبدیل کروا رہے ہیں۔ ایک کاپی ،کرسی اور فوٹو کاپی لیٹر پڑھ کر پی ٹی آئی اے تائب ہوا جا رہا ہے۔ صحافیوں پر ظلم کررہے ہیں۔ انہیں گھروں سے اٹھا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کی ایسے منتظر ہے جیسے حضرت عیسیٰ کے آنے کا انتظار ہو رہا ہو۔ سکرپٹڈ ڈیموکریسی نے ملک کا حشر نشر کردیا ہے۔ پاکستان میں پاپولر لیڈر یکدم غیر مقبول کیوں ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کو ہر چار سال بعد جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے تو جمہوریت کبھی پروان نہیں چڑھے گی۔ہچکولے کھاتی رہے گی۔ مائنس ون کا ایجنڈا آج تک کامیاب نہیں ہوسکا۔اس لئے ذمہ داران کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔جمہوریت اور آئین کو جوتے کی نوک پر رکھ لیا ہے۔ کیسا قانون اور کیسا ملک ہے کہ توہین آئین ہو کوئی بات نہیں ۔ توہین انسانی حقوق ہو کوئی بات نہیں۔ توہین آئی جی یا توہین آرمی چیف نہیں ہونی چاہیے۔جس معاشرہ میں قومی لیڈر اور سیکورٹی ادارے عورتوں، بچوں اور بوزرہوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیں تو سمجھ جائیں کہ ذمہ دار لوگ کمزور، بزدل اور بے غرت ہوچکے ۔ پی ٹی آئی کے ممبران اگر قصوروار تھے تو انہیں چھوڑا کیوں جا رہا ہے۔ اگر بے قصورہیں تو انہیں پکڑا کیوں گیا تھا۔ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں ،ان کی غیر خاضری میں پارٹی قریشی اور خٹک کوچلانے کا عندیہ دیا ہے۔ (پیپر ڈاک )یعنی پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔انہیں پی ٹی آئی کیخلاف استعمال کر لیا گیا۔الیکشن سے بھاگنے والے اگست کے بعدبھونک نہیں پائیں گے۔ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم کو آٹے دال کا بھا ئومعلوم ہوجائے گا۔ عمران خان کے mouth piece اوریا مقبول جان کافی دن سے گرفتار ہیں۔ جن کے بارے کوئی میڈیا، کوئی لیڈر آواز نہیں اٹھا رہا کیونکہ وہ دینی ذہنیت کے حامل شخص ہیں۔ سمیع ابراہیم، عمران ریاض کے بارے کچھ صحافی حضرات آواز اٹھا رہے ہیں۔ اسے منافقت اور دُہرا معیار کہتے ہیں۔ میری جماعت اسلامی کے ذمہ داران سے عرض ہے کہ اس مشکل وقت میں جماعت اسلامی کو انسانی حقوق کی پامالیوں،عورتوں کے ساتھ بدسلوکیوں اور بے حرمتی پر عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔
پاکستان میں بزنس ٹائیکون یا تو میڈیا ہائوس یعنی ٹی وی یا رئیل اسٹیٹ کابزنس کرتے ہیں پھر شہرت کے بعد سیاسی پارٹی بنا لیتے ہیں۔ جیسے رانا تنویر الیاس کشمیر ، جہانگیر ترین کو پنجاب میں لانچ کیا جارہا ہے۔ یہ چلے ہوئے کارتوس سیاسی گندگی میں مزید اضافہ کرینگے۔اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی ریزرو فورس کا کردار ادا کرینگے۔ جیسے ایم کیو ایم اور فضل الرحمن استعمال ہوتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ کب کوئی نااہل اور کب کوئی اہل ہوجائے۔ اس سسٹم کو سمجھنے کے لئے بڑا ڈاکو، قاتل، دہشت گرد بڑا مجرم اور جرائم پیشہ ہونا ضروری ہے۔ وزیر قانون کے مطابق نواز شریف اور جہانگیر ترین اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ کیونکہ وہ پہلے اپیل کر چکے ہیں۔ نواز شریف اور مولانا آئندہ صدارتی امیدوار ہیں۔ اگر نوازشریف صدر بنے تو صدر کو امپاور کیا جائے گا۔مولانا کو ایک بار پھر گوگلی کرائی جائے گی۔ کیونکہ متشدد ذہنیت کے کسی شخص کو فوج اور امریکہ صدارتی دوڑ میں برداشت نہیں کرسکتے۔ بہر حال اس ساری گندگی کے خلاف کھڑے ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ اور جوڈیشری کو ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔ جس آئین کے تخفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔ اس آئین کی پاسداری بھی کریں۔ صدر مملکت نے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں ملاقات کرانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ممکن نہ ہوسکی۔ پہلے عمران مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اب پی ڈی ایم مذاکرات نہیں کرنا چاہتی۔ چوروں کی بارات قوم پر مسلط ہے۔ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں۔ انکی کوئی وقت اور حیثیت نہیںکہ عوام پر حکمرانی کریں۔عمر بن عبدالعزیز کا دور تھا۔ محمد بن عروہ یمن کا گورنر بن کر شہر میں داخل ہوا ۔ اور کہا لوگو یہ اونٹ میری اپنی سواری ہے۔ اگر اس سے زیادہ میرے پاس ہوا تو مجھے چور سمجھنا۔ جس دن وہ واپس جا رہا تھا ۔ یہی جملہ دہرایا لوگو یہ میری سواری تھی میں صرف اسی کے ساتھ واپس جا رہا ہوں۔ یمن کے لوگ سابق گورنر سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے۔
دوستو!کیا موجودہ دور میں کوئی ایسا حکمران ہے جس کے جانے کے بعد لوگ اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ ہمارا المیہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم اخلاقی گراوٹ،تنگ نظری ،مذہبی منافرت ،قدورت اور نفرت کا شکار ہوچکے ہیں جس سے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ اسکا واحد حل بنیادی حقوق کاتحفظ اور قیام پاکستان کے مقاصد کو امپلیمنٹ کرنا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here