مجموعی طور پر تو پاکستان ڈیفالٹ کرنے سے بچ گیا ہے، لیکن دیکھا جائے تو پاکستان کی عوام کب سے ڈیفالٹ کر چکی ہے، پاکستانی معاشرے میں پہلے رائج فقرہ یہی تھا کہ مشکل سے گزارا ہو رہا ہے مگر اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہر زبان پر ایک ہی فقرہ ہے کہ بالکل بھی گزارا نہیں ہو رہا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بھوک کے ہاتھوں مرنے کے بجائے لوگ بیرون ممالک جان کی بازی لگا کر پہنچنا چاہ رہے ہیں، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جس حساب سے لوگ پاکستان سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، کہیں کسی روز اسلامی جمہوریہ پاکستان خالی جمہوریہ پاکستان میں رہ جائے۔
اس میں لوگوں کا قصور نہیں، پاکستان میں لوگوں کی حالت زار اس قدر بری ہوتی جا رہی ہے کہ جس پر زار قطار رونے کو دل چاہتا ہے، انہی پریشانیوں کے عالم میں گزشتہ دنوں اخبار میں پڑھا کہ پاکستان میں زراعت کی بہتری کے لیے سبز انقلاب نامی پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے، صوبے کی حد تک تو شہباز شریف کی کارکردگی کافی حد تک بہتر ہوتی تھی لیکن جب سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے، ان سے کوئی چیز بھی سنبھالی نہیں جا رہی جس کے بعد سبز انقلاب پروگرام بھی مجھے سبز باغ ہی محسوس ہو رہا ہے، پاکستان میں ہمیشہ سے حکومتی کارکردگی کا عالم یہ رہا ہے کہ اب ان کی کسی بات پر بھی یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا، ہم اس لحاظ سے بھی منفرد قوم ہیں کہ دنیا میں جن ممالک نے ترقی کی، ہماری کہانی ان سے نہ صرف مختلف بلکہ مکمل طور پر اُلٹ کی نظر آتی ہے۔
مثلا جس طرح اب زراعت کی بہتری کے لیے سبز انقلاب کا یہ پروگرام شروع کیا جا رہا ہے خدشہ یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے ملک کی زراعت بہتر ہو نہ ہو مگر “فوجی محکمہ زراعت کا بھلا ضرور ہوگا اور نہ جانے کتنی ہی زرعی زمین اب بوٹوں کے نیچے ہوگی، اس پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے ایک بار اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ پاکستان جو کبھی زرعی ملک ہوا کرتا تھا اس کی ہریالی پر کرپشن کے پھول کس نے اُگائے جس کے سبب پاکستان میں زراعت تباہ حال ہوئی، دل تو چاہتا ہے کہ جو بھی حکومتی سطح پر پروگرام شروع ہو، اسے چار چاند لگیں مگر دل میں خدشہ اب یہی رہتا ہے کہ چار چاند لگے نہ لگیں کہیں اس پروگرام کے آڑ میں حکومت عوام پر چار ٹیکس اور نہ لگا دیں۔
٭٭٭