آنکھیں کھلی رکھیں !!!

0
127

ایک حساس ادارے کے ڈائریکٹر اپنے ماتحت کا واقعہ سناتے ہوئے بتاتے ہیں کہ غضنفر جاوا میری ٹیم میں سب سے قابل زیرک خوش شکل اور خوش اخلاق بلکہ ہر خوبی کا مالک انسان تھا ،حال ہی میں وہ افغانستان میں اپنا مقصد حاصل کر کے تین ماہ بعد لوٹا تھا اور یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ زندہ لوٹ آیا ورنہ اس کے نوے فی صد چانس فرائض منصبی انجام دیتے ہوئے شہید ہو جانے کے تھے کہ ادارے کی پالیسی کے مطابق اس کی تدفین وغیرہ کے لئے مخصوص چیزیں تک تیار کروا کر رکھوا لی تھیں مگر شاید تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا لہٰذا وہ کامیاب ہو کر زندہ واپس لوٹ آیا ،وہ گھر چھٹی گیا ہوا تھا اور اچانک سے اس کا استعفیٰ موصول ہوا تو مجھے حیرت ہوئی، میں نے اس سے رابطہ کیا اور سمجھایا مگر وہ اپنی بات پر اٹل رہا یہاں تک کہ میں اس کا استعفیٰ منظور کرنے کے لئے راضی ہو گیا مگر بدلے میں اسے استعفیٰ دینے کی وجہ بتانے کی شرط رکھی ۔غضنفر نے ایک شام مجھے اپنے گھر چائے پر بلایا اور بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے لہٰذا اب وہ ڈیوٹی انجام نہیں دے سکتا کیونکہ گھر پر اس کی بوڑھی والدہ اکیلی ہوتی ہیں اور بیٹے سے بہتر ماں کا کوئی خیال نہیں رکھ سکتا، میں نے معذرت کرتے ہوئے اس سے طلاق کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ جب میں چھوٹے موٹے مشن پر یا نارمل ڈیوٹی پر ہوتا تھا تو ہفتے دس دن بعد گھر چکر لگتا رہتا تھا ،شادی کے بعد میں محسوس کر رہا تھا میری والدہ صاحبہ مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہیں، ان کے چہرے پر ایک عجیب خوف رہتا ہے، کوئی کام اعتماد سے نہیں کرتیں ،ایک دو بار میری والدہ صاحبہ نے مجھ سے میری بیوی کی شکایت لگائی کہ وہ مجھے مارتی ہے جب میں نے بیوی سے بات کی تو وہ سرے سے مکر گئی بلکہ ایک ملازمہ جو میری بیگم کے ساتھ ہی میکے سے آئی تھی ،اس نے بھی میری بیوی کے حق میں گواہی دی اور مجھے سمجھایا کہ جس عمر میں آپ کی والدہ پہنچ گئی ہیں اس عمر میں لوگوں کو ویسے ہی وہم ہو جاتا ہے ساتھ ہی اپنی ماں کے متعلق جھوٹا قصہ گھڑ کر سنا دیا جس سے خیر میں مطمئن ہو گیا ۔کچھ عرصہ بعد میں والدہ صاحبہ کی ٹانگیں دبانے لگا جوں ہی ان کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے سسکی لی جیسے کسی زخم پر ہاتھ آ جائے تو انسان لیتا ہے ،میں نے والدہ صاحبہ کی ٹانگ سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہاں کٹ لگے ہوئے تھے ،میرے پوچھنے پر والدہ نے ملازمہ اور میری بیوی کا نام لیتے ہوئے کہا انہوں نے تشدد کیا ہے جب میں نے ملازمہ اور بیوی کو بلایا تو انہوں نے ایک بار پھر والدہ صاحبہ کو ذہنی مریضہ قرار دیتے ہوئے اس واقعے سے لا علمی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی بتایا کہ میری والدہ چھری کی مدد سے جلد پر خارش کرتی رہی ہیں ،شاید اس وجہ سے یہ ہوا ہے اب کی بار بھی میں نے بیوی اور ملازمہ کی بات مان لی۔اس بار جب میں مشن مکمل کر کے آپ سے ملنے کے بعد گھر پہنچا تو بغیر اطلاع دیئے آیا اور کچن کی کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا ،میں نے دیکھا کہ ملازمہ میوزک سنتے ہوئے کھانا بنا رہی ہے، میری والدہ صاحبہ شیشے کا گلاس لے کر پینے کے لئیے فلٹر نل سے پانی بھر رہی ہیں ،اس دوران گلاس ان کے ہاتھ سے گرتا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے، ملازمہ کے ہاتھ میں سٹیل کا کوئی برتن آتا وہ وہیں کھڑے کھڑے میری والدہ کے سر میں دے مارتی ہے ،میری والدہ صاحبہ سر پکڑ کر نیچے بیٹھتی ہیں اور کانچ کے ٹکڑے چنتے ہوئے ملازمہ کو کہتی ہیں کہ بیٹا اب تو نے مجھے مار لیا ہے ،اب میری بہو کو نہ بتانا مگر اتنی دیر میں میری بیوی برتن ٹوٹنے اور سٹیل کا برتن گرنے کی آواز سن کر کچن میں پہنچ چکی ہوتی ہے ۔میں دل پر پتھر رکھ کر اپنی بیوی کے ری ایکشن کا انتظار کر رہا ہوتا ہوں میری بیوی میری والدہ صاحبہ کو گردن سے پکڑ کر جھٹکا دیتی ہے تو جو کانچ میری والدہ صاحبہ اٹھا رہی ہوتی ہیں وہ ان کے ہاتھ میں بہہ جاتا ہے میں فور اندر داخل ہوتا ہوں، بیوی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہوں، وہ ہی سٹیل کا برتن اٹھا کر ملازمہ کے سر پر دے مارتا ہوں اور وہیں کھڑے کھڑے بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں ۔میری بیوی ایک اچھے خاصے مضبوط سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اسے مجھ سے یہ امید نہیں ہوتی وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھ رہی ہوتی ہے ،میں والدہ صاحبہ کو اُٹھا کر گاڑی میں ڈالتا ہوں اور ہسپتال لے جاتا ہوں اور سابقہ بیگم کو نصیحت کر جاتا ہوں کہ میرے آنے سے پہلے گھر سے جو کچھ چاہو لے کر نکل جا، والدہ صاحبہ کی پٹی کروانے کے بعد ان کو ہوٹل سے کھانا کھلاتا ہوں ،رات ساری والدہ صاحبہ کو گاڑی میں گھماتا ہوں، صبح فجر کے وقت گھر واپس جاتا ہوں ،میری سابقہ بیگم جا چکی ہوتی ہے، میں گھر لاک کرتا ہوں، نماز پڑھ کر سو جاتا ہوں، جب اٹھتا ہوں تو میری سابقہ بیگم کے گھر والے سینکڑوں کالز کر چکے ہوتے ہیں پھر میں ان سب کو ان کی بیٹی کے کارنامے بتاتا ہوں ۔عام پاکستانی لوگوں کی طرح وہ بھی اپنی بیٹی کو بھولی بھالی اور معصوم سمجھتے ہوئے مجھ پر الزام لگا دیتے ہیں کہ میں نے اپنی ملازمہ جو کہ میری بیگم کے ساتھ اس کے میکے سے ہی آئی تھی اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ،میری بیگم نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور مجھ سے طلاق لے اب سنا ہے وہ لوگ پولیس کیس بنانا چاہ رہے ہیں،خیر پولیس کیس بنے یا نہ بنے میں تو والدہ صاحبہ کو چھوڑ کر ڈیوٹی نہیں کر سکتا اور اب کسی دوسرے انسان پر بھروسہ بھی نہیں کر سکتا ،اس لئیے میں معافی چاہتا ہوں، آپ میرا استعفیٰ قبول کر لیجئے،غضنفر کی بات ختم ہوئی میں نے اس کا استعفیٰ قبول کر لیا جب وہ سابقہ سسرال کے کیسز سے بری ہو گیا تو میں نے اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کروا دیا اور آج میری بیٹی اس کے گھر میں بہت خوش ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here