ریاستہائے متحدہ امریکہ میں گزشتہ پون صدی کے دورانیے میں اگر مسلم کمیونٹی کے اضافے کو جانچنا ہو تو اس کا سب سے اہم طریقہ یہاں منعقد ہونے والے سالانہ کنونشنز ہیں۔ ابتدا میں، ان سالانہ اجتماعات میں اسلامی تعلیمات ہی زیربحث رہتی رہیں لیکن کچھ عرصے بعد اس بڑھتی ہوئی کمیونٹی کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل بھی سامنے آنے لگے۔ اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ (اثنا) اس سالِ میں اپنا باسٹھواں کنونشن شکاگو میں منعقد کرے گی جبکہ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (اکنا) کا پچاسواں کنونشن اس ویک اینڈ پر بالٹی مور میں ہو رہا ہے۔ ان کنونشنز کے موقع پر دور دور رہنے والے عزیز رشتہ دار اور قریبی دوست خاندان بھی ملنے ملانے کا اہتمام کرتے ہیں جبکہ نئی نسل کے رشتے بھی طے کرنے میں یہ اجتماعات مدد دیتے ہیں۔ بھولے بسرے کئی احباب اقبال کا یہ شعر گنگناتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
سالانہ کنونشنز میں صرف ان تنظیموں کے ارکان ہی شریک نہیں ہوتے بلکہ دیگر مسلمان اور اسلام میں دلچسپی رکھنے والے دوسرے لوگ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد بخاری صاحب ذکر کرتے ہیں کہ مرحوم پروفیسر خورشید احمد نے مغربی دنیا میں منعقد ہونے والے، ان کنونشنز کے حاضرین کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مسلمان دراصل اپنی اسلامی شناخت کے اظہار کیلئے ان کنونشنز میں شرکت کرتے ہیں۔ اقلیتوں کیلئے اپنی شناخت برقرار رکھنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ شاعر، خورشید طلب کے الفاظ میں،ہر ایک آنکھ میں خود کو تلاش کرتے ہیں ابھی شناخت طلب گم شدہ ہماری بھی ہے، دنیا میں ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ جب کوئی غیر مسلم، اسلام قبول کر لیتا تھا تو اسے لوگ کہتے تھے کہ فلاں ترک بن گیا ہے۔ اسلامی شناخت کا کسی قوم کی شناخت کے ساتھ اس قدر جڑ جانا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اناطولیہ کی تہذیب کو پروان چڑھانے میں کئی قوموں کا کردار رہاہے۔ آج کا ماڈرن ترکیہ بھی نہ صرف اپنے اس قومی ورثہ پر فخر کرتا ہے بلکہ اسے دوسری قوموں تک پہنچانا بھی چاہتا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے اسی ورثے کو امریکہ کے لوگوں تک بہتر انداز میں پہنچانے کیلئے پچھلے سال ترکش ہیریٹیج کنونشن کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اس ویک اینڈ پر دوسرے سال کا کنونشن منعقد کیا جا رہا ہے۔ خوب رونق ہے۔ پندرہ ہزار سے زائد لوگ یہاں موجود ہیں اور ترکیہ سے آئے ہوئے فن کاروں کے فن سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ فراغ روہوی نے شاید یہ ترکوں کے بارے میں ہی کہاتھا کہ!
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
روشنیوں سے بھرپور کنونشن کی بہت بڑی اسٹیج سے جب مولانا روم اور یونس ایمرے کے دیس سے آئے ہوئے، فاتح خوجہ اور مسعود کردش نے صوفیانہ کالم سے حاضرین کو نوازا تو ایک عجیب سماں بندھ گیا۔ انا طولیہ کی تہذیب کو شکاگو کے ایک کنونشن سنٹر میں دو تین کے اندر تو نہیں سمیٹا جا سکتا مگر منتظمین کی کاوشیں بیحد قابلِ ستائش رہیں۔ ترکیہ سے آئے ہوئے مشہور و معروف شیفز نے کنونشن کے حاضرین کیلئے بہت لذیذ کھانے بنا کر بڑے اچھے انداز میں پیش کئے۔ استنبول کے گرانڈ بازار کی طرح کا لگا ہوا بازار یہاں بھی بہت مقبول رہا۔ التغرل ٹینٹ کے اند بیٹھ کر شائقین نے خوب فوٹو گرافی کی۔ خلافت عثمانیہ کے دور کے لباس سے ہر کوئی متاثر نظر آیا۔ حسرت موہانی نے خوب کہا تھا۔ دل خوب سمجھتا ہے ترے حرف کرم کو
ہر چند وہ اردو ہے نہ ترکی ہے نہ تازی
ترک کنونشن کے تعلیمی اور تربیتی پروگرام بھی بہت مثر رہے۔ تاریخی ورثہ سے لے کر معروضی حالات تک، سب کا احاطہ کیا گیا۔زکواة فائونڈیشن نے غزہ اور دنیا بھر کے یتیموں کیلئے فنڈ ریزنگ کی۔ خواتین کیلئے علیحدہ پروگراموں کا اہتمام بھی تھا تاکہ انکی دلچسپی کے موضوعات پر وہ آپس میں گفتگو کر سکیں۔ لیڈرشپ کے ایک علیحدہ پروگرام میں شکاگو کی مسلم کمیونٹی کے لیڈرز اور ترکیہ سے تشریف لانے والے عرفہ اور قونیہ کے مئیرز نے شرکت کی۔ آج یہ کنونشن اختتام پذیر ہو رہاہے اور مجھے علامہ اقبال کے کہے ہوئے وہ اشعار یاد آرہے ہیں جو انہوں نے فاطمہ بنتِ عبداللہ کے بارے میں کہے تھے۔
فاطمہ! تو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
کبھی کسی دوسری قوم کی غلام نہ رہنے والے ہمارے ترک بہن بھائی یقینا علامہ کے اس شعر کے مستحق ہیں۔
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی
٭٭٭











