”ہمدردی اور احساس”

0
113
شبیر گُل

زندگی کا ایک سال مزید گزر گیا جس میں اللہ رب العزت نے صحت سے نواز، دوبارہ تندرستی عطا فرمائی۔ سال کے 365 دنوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ بغیر کھائے یا خالی پیٹ سوئے ہوں۔یہی تو خدا بزرگ و برتر کا احسان ہے۔رب کائنات کی بیش بپا نعمتوں کا شکرانہ صرف اس کے آگے سر بسجودہونے سے ادا ہوسکتا ہے ۔ اور سجدہ شکر بجا لانے سے اس کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ میں نے بیماری کے دنوں میں اللہ رب العزت کو بہت قریب سے سمجھنے کا موقع ملا۔ہم نے شائد کبھی غور نہ کیا ہوکہ اللہ رب العزت نے جیسے کائنات کو انتہائی ترتیب سے تخلیق کیا ہے ۔ ویسے ہی انسان کے ایک ایک اعضا کو بھی احسن ترتیب اور سلیقہ سے مزین کیا ہے۔ان اعضا کا خیال کرنا، اپنی صحت پر توجہ دینا دراصل اسکی نعمتوں کا شکرانہ ہے۔ جیسے گاڑی کے پرزے ،صیح کام کریں تو گاڑی فراٹے بھرتی ہے۔ بیعنہ ہے انسان کی زندگی کی گاڑی صحت و تندرستی اور اعضا کی سلامتی کے بغیر رواں دواں نہیںہوسکتی۔ 2023 کے آخری دو ماہ اور سال کا آغاز بیماری میں گزرے۔ مسلسل چار ہفتے ہاسپیٹل ۔کبھی کوئی سرجری اور کبھی کوئی۔ چار سرجریوں کے بعد اللہ رب العزت نے ایکبار پھر صحت و عافیت سے نوازا۔امریکہ اور یورپ کی جدید ٹیکنالوجی ،علاج میں جدت اور مریض کی نگہداشت کی کوئی مثال نہیں،ڈاکٹرز،نرسیز اور میڈیکل سٹاف خدمت انسانی سے لبریزاور اخلاقی اعتبار سے انکا کوئی ثانی نہیں اگر انسانیت سیکھنی ہو تو ہاسپیٹلز کے ان ڈاکٹرز سے سلھیں۔ جو مریضوں سے انتہائی شفقت ومحبت پیش آتے ہیں،علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،میں نے چار ہفتوں میں انسانیت کی جھلکیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔اس کے برعکس پاکستان میں ڈاکٹرز کا مریضوں کے ساتھ رویہ انتہائی معاندانہ اور قصائیوں جیسا رہتا ہے،مارے ممالک میں ڈاکٹرز کی گردن میں سریا اور مریضوں سے سلوک کی ہزاروں داستانیں ہیںجو ہماری انسانی اور اخلاقی روایات کے خلاف۔ اسلامی قدروں کے خلاف ہیں۔قارئین کرام! میں ہر لمحہ ہر گھڑی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹرز کو دعائیں دیتا ہوں جنہوں نے ایک بار پھر مجھے زندگی کی امید دلائی۔میں کمیونٹی کے دوستوں کا انتہائی مشکور وممنون ہوں جن کی دعاں کے صدقے اللہ رب العزت نے مجھے تندرستی عطا فرمائی۔خصوصا اپنی ،بنگلہ ، یمنی، اور افریقن کمیونٹی کا شکرگزارہوں جنہوں نے مجھ عاجز کی تندرستی کے لئے دعائوں کی خصوصی محافل منعقد کیں، کمیونٹی میں جو لوگ خوش رہتے ہیں، خوشیاں بانٹتے ہیں وہ دراصل دلوں کو طمانیت کا باعث ہوتے ہیں۔ ایسے نایاب ہیرے محبت کی جو چاشنی بانٹتے ہیں وہ دراصل دوسروں کے لئے تھراپی کاکام کرتی ہے۔ایسے دوست دلوں میں تو بستے ہی ہیں لیکن انکی مسکراہٹ بیمار، مایوس، اور پریشان دوستوں کے دلوں پر مرحم کا کام کرتی ہے۔خوشیاں اردگرد کے ماحول پر اثر اندازہوتی ہیں۔فضا کو محبت سے معطر رکھتی ہیں، اسکے برعکس جو ہر وقت چڑچڑا پن، غصہ ،ماتھے پر بل رکھتے ہیں ۔ وہ انتہائی تنگ دل اور ناشکرے ہوتے ہیں۔ دوران بیماری جیکوبی ہاسپیٹل کے ڈاکٹرز اور SUV نے میری بہت نگہداشت کی ، میں چونکہ SUV کا ممبر ھوں ۔ ایس یو وی برانکس میں کرائم اور وائلنس کے خلاف سرگرم آرگنائزیشن ہے جس میں ڈاکٹرز ،امامز، پاسٹرز، چیپلن اور کمئونٹی کے متحرک لوگ ممبر ز ہیں۔SUV کے بورڈ ممبرز روزانہ تیمارداری اور دعا کے لئے تشریف لاتے ۔ڈاکٹرز کو ہدایات فرماتے۔ان سے لمحہ ہمہ رپورٹ لیتے۔ میں ہاسپیٹل میں اپنے آپکو ماں کی گود میں محسوس کرتا تھا۔لیکن ابھی زندگی کے امتحان باقی ہیں ۔ابھی پتہ نکالیں گے اور پھر تین ماہ بعد لیور کو آپریٹ کرینگے۔تمام بہنوں اور بھائیوں سے خصوصی دعائوں کی درخواست ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت کمئونٹی کے تمام ممبرز کو تندرستی اور عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین ۔ دیار غیر میں خفاظت فرمائے۔ ایک دوسرے سے محبت اور شفقت کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین
امریکہ جیسے معاشرہ میں ڈاکٹرز اپنے منصب سے بت انصاف کرتے ہئں ۔مریضوں سے انتہائی محبت کرتے ہیں۔میرے تینوں سرجن ہندو تھے۔ڈاکٹر پٹیل، ڈاکٹر وقاش،ڈاکٹر کشور، جن میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ میں مانتا ہوں یہ انکا پروفیشن ہے۔یہ لوگ نہ تو کوئی مذہبی اسکالرز ہیں اور نہ عالم دین ، کہ جو صرف انسانیت،اخلاقیات اور رحم دلی کی بات کریں۔ ہاسپیٹل کئی امامز ،تین بیشپ، درجن ،پاسٹرز اور کئی کرسچن منسٹرز آئے ، جنہوں نے میرے لئے خصوصی دعاں کا اہتمام کیا۔اللہ رب العزت ہماری نیتوں کو،ہمارے اعمال کو، ہمارے اخلاق کو، ہمارے کردار کو دیکھتا ہے۔اچھے اعمال کے ساتھ اخلاق و کردار سے انسانیت کی جھلک نظر آنی چاہئے۔ ھم تو مساجد میں دوسرے مسالک کے لوگوں کو برداشت نہیں کرتے ۔کسی عالم کی بے سروپا باتوں سے یا قرآن و حدیث کے خلاف رائے سے آپ متفق نہ ھوں تو اس چھوٹے بونے عالم کی نفرت آپکا مقدر ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ انکے مدارس انہیں اسی نفرت کی تعلیم دیتے ہیں۔ کاش ہمارے مدارس میں ان علما کو لوگوں سے محبت و شفقت کا درس بھی دیا جاتا؟
ہمارے ہاں محراب و ممنبر کے ورثا، نظریاتی تنگی اور مسلکی نفرت میں بہت آگے ہیں۔اگر شرک و بدعت سے آپ اتفاق نہ کریں ۔مسجد کمیٹی کی کسی بات سے متفق نہ ھوں ۔ تو آپکو سب سے زیادہ نفرت انگیزی کا سامنا،اس بونے اور خالی برتن کی طرح کھڑکنے والے مولوی سے ہوگا۔یہ اسلام کے ٹھیکیدار آپکے سلام کا جواب نہیں دینگے۔ یہ انکے ایمان کا لیول ہے ۔ان علما خضرات کو خضور اقدس کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ پاکستانی اور انڈین علما کے برعکس ۔عرب، افریقن، یورپین اور بنگلہ علما کے مزاج اور ہمارے علما کے مزاج اور اخلاق میں زمین و آسماں کا فرق ہے۔منبر رسول پر ھمارے علما کے منہ سے آگ برس رہی ھوتی ہے۔ غصہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے ۔ یہ ھمارے دین کا خاصہ نہیں ہے۔بحیثیت علما ہمیں اپنے رویوں کا، اپنے اخلاق کا جائزہ لینا چاہئے۔کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
کیا ہم اپنے اخلاق کا دوسری اقوام سے تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں۔ ؟
جو قرآن کی سایہ میں بیٹھ کر نفرت، کینہ اور بغض رکھتے ہیں۔ مثالیں ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی مرتضی رضوان علیہم اجمیعین کی دیتے ہیں۔ اہل بیت کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن امت کو دین سے دور کرتے ہیں ۔ ھم جس ملک یا معاشرہ سے آئے ہیں وہاں کسی بھی شعبہ میں انصاف نہیں۔ جھوٹ ، نفرت، ملاوٹ ، زورزبردستی ، ظلم اور بربرئیت،بے انصافی اور بے ایمانی ۔ہمارے مخافظ چادر اور چاردیواری کو پامال کرتے ہیں۔رات کو عورتوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں ۔ بچوں اور بوڑھوں پر تشدد کرتے ہئں۔ لیکن ہم سے بہتر نہ کوئی انسان اور نامسلمان۔ جن علما کے پیچھے ہم پڑھ کر آئے۔ ان علما میں اور آج کے علما کی تہذیب و تمدن میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مثالیں ہم اصحاب رسول کی دیتے ہیں ۔ مزاج ابوجہل جیسا رکھتے ہیں۔ دراصل معاشرے کی تربیت کرنے والے عناصر ، غیر تربیت یافتہ اورعلمی قابلیت سے محروم ہیں۔چھابڑی سے لیکر منڈی تک۔ڈسپنسری سے ہاسپیٹل تک۔تھانے سے عدالت تک ۔جی ایچ کیو سے آرمی چیف تک۔سکول سے یونیورسٹی تک ۔مسجد سے لیکر مدارس تک ۔لوکل کونسل سے پارلیمنٹ اور سینٹ تک ۔جاہل اور کرپٹ عناصر براجمان ہیں۔نظریاتی مملکت اخلاقی گراٹ ،تہذیب و تمدن سے عاری ،مذہبی، سماجی اور اخلاقی رواداری سے دور ہیں۔ہر سطح پر معاشرتی بگاڑ نے ہمارا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ خصوصا ہمارے علما خضرات کو انسانیت اور اخلاقیات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیڈر اور امام ہیں ۔انہیں رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں (اصحاب رسول)کی کردار کی عملی تصویر نظر آنا چاہئے۔ہم غیروں کو تو سینے سے لگاتے ہیں ۔ اپنوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ یہ رسول اللہ کی تعلیمات نہیں ہیں ۔قارئین کرام! زندگی چندروزہ ہے۔اپنے حال پر رحم کریں۔خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں۔ خوشیاں سمیٹیں۔ کسی کی دل آزادی نہ کریں۔ ایک دوسرے کا احساس کریں۔کسی کا دل نہ دکھائیں۔ دنیا میں بہت کم انسان ہوتے ہیں ۔جنہیں اللہ رب العزت دوسروں کا احساس کرنے کے لئے پیدا فرماتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہئں۔جو دوسروں کا احساس اور ہمدردی کرتے ہیں۔اور وہ لوگ بھی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں ۔ جن کے لئے سینکڑوں لوگ احساس کرنے والے ہوں۔ ہزاروں لوگ بے لوث دعا کرنے والے ہوں۔مجھ جیسا، عاجز اور گنہگار ان خوش نصیبوں میں شامل ہے ۔ جس کے لئے ہر رنگ ونسل کے لوگوں نے صحت کی دعائیں کیں۔سچ تو یہ ہے کہ نہیں معلوم آپکے ساتھ کل کیا ھوسکتا۔ آپ کی کونسی لغزش اللہ کو ناپسند آجائے۔ اس لئے ہر دم ہر گھڑی مالک ارض و سما سے ڈرنا ۔ عجز وانکساری کو اپنانا ۔ اللہ کے تابع فرمان بندوں کا کام ہے۔ انسان کا کام ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلائے رکھے۔ نیکی اور اچھائی کے کام میں دست و بازو بنے۔ انسانیت کی خدمت میں۔ دکھوں کے مداوا میں۔ مشکلات کی انسانی میں ۔ لوگوں کے کئے راحت کا سامان پیدا کرئے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کایہی مقصد ہے اور انسانی زندگی کے یہی تقاضے ہیں۔ یہ عادات و اطوار ہی انسان اور جانور میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد صرف سونا اور کھانا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد دکھوں کو بانٹنا ہے۔ بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان ، ھم پر دوہری ذمہ داریوں کا اطلاق ھوتا ھے۔ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔جزا و سزا کو مانتے ہیں ۔ نبء آخر الزمان کی اطاعت کرتے ہیں ۔ اس لئے خیر اور بھلائی ھماری سرشت میں ہونا لازمی امر ہے۔ اللہ رب العزت قرآن حکیم میں فرماتے ہیں کہ تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ھونے چاہیں ۔ جو نیکی کا احکام دیں۔ بھلائی کی تعلیم دیں اور بدی سے روکیں۔ جو لوگ یہ کام کریںنگے۔وہی فلاح پائینگے۔(القرآن سورہ آل عمران)
ھم ایک دوسرے کے لئے ایسا دروازہ بنیں جہاں سے خیر داخل ھوتی ھو ۔ یہ نہیں کرسکتے تو ایسی کھڑکی کھولیں جہاں سے روشنی داخل ہو۔ یہ بھی نہیں کرسکتے تو ایسی دیوار بنیں جو تھکے ہووں کو سہارا دے ۔کیونکہ اللہ کی مخلوق سے محبت ۔ اللہ رب العزت سے محبت ہے،انسانی زندگی میں اصل کامیابی کا مدار صرف تین چیزوں پر ہے،عبادت خدا کی۔ اطاعت مصطفے کی اور خدمت مخلوق خدا کی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here