غزہ کی یتیم بچی حالہ کا سوال،بِیِ ذنب قتِلت!!!

0
11

ستائیس رمضان المبارک کی لیلة القدر کے شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی تھے کہ زکواة فائونڈیشن امریکہ کے شکاگو آفس میں ہماری غزہ کی ٹیم نے اطلاع دی کہ یتیموں کی کفالت کے پروگرام کے تحت فائدہ اٹھانے والی ایک اور بچی، اپنے پورے باقی ماندہ خاندان کے ساتھ ظالم کی بمباری کا شکار ہوگئی ہے۔ اس کا نام حالہ تھا۔ جب وہ دس برس کی تھی تو ہمارے پروگرام کا حصہ بنی تھی۔ آرفن سپانسرشپ پروگرام میں ہمارا پروفیشنل اسٹاف بچوں کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہتا ہے اور انکی بہتر نشو نما کا اہتمام کرتا ہے۔ حالہ کی خواہش تھی کہ وہ بچوں کے امراض کی ڈاکٹر بنے کیونکہ غزہ کے بچوں کو اچھا علاج میسر نہیں، حالہ کو کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ، نظمیں اور کہانیاں لکھنے کا بھی بیحد شوق تھا۔ سولہ برس کی یتیم اور معصوم حالہ خود تو اپنی امی اور تین دیگر بھائی بہنوں کے ہمراہ جنت الفردوس کی جانب روانہ ہوگئی لیکن رمضان کے مقدس مہینے کے بابرکت تیسرے عشرے میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا سوال چھوڑ گئی کہ غزہ میں تیرہ ہزار سے زائد بچوں کی شہادتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اسرائیلی پائلٹ اور فوج یا امریکی گولہ بارود اور جہاز یا امریکہ کے وہ ٹیکس دینے والے جن کی دولت سے یہ اسلحہ، گولہ بارود اور جہاز بنائے جا رہے ہیں۔حالہ، اپنی فیملی کے ساتھ جس شہر میں رہتی تھی، اس کا نام جبالیہ کیمپ ہے۔ کیمپ اس لئے کہ یہ میں فلسطین کے دوسرے علاقوں سے آنے والے مہاجرین کیلئے عارضی رہائش گاہ کے طور پر بنایا گیا تھا۔ یہ شہر دنیا کا گنجان ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں فلسطینیوں کی کئی نسلیں، رہائش پذیر رہ چکی ہیں۔ غزہ کے محاصرے کو بھی اب اٹھارہ سال گزر چکے ہیں۔ حالیہ بمباری کے بعد تو اس پورے علاقے کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سترہ ہزار سے زائد بچے، اس پچھلے چھ ماہ کی مسلسل بمباری سے یتیم ہوگئے ہیں۔ زکوا فانڈیشن جیسے اداروں کی ذمہ داریاں اب مزید بڑھ گئی ہیں۔
میں پچھلے بیس پچیس سالوں سے مختلف رفاہی اداروں کی انتظامیہ میں کلیدی پوزیشنز پر رہا ہوں اور مختلف ایسے سانحات کو بہت قریب سے دیکھا ہے جو انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں متاثرین صرف اس وجہ سے تکالیف سے گزرے کہ انسانیت اپنے مسائل باہمی گفت و شنید سے حل نہ کرسکی۔ قدرتی وسائل پر ناجائز قبضے، انا کی انانیت، فرعونیت کی رعونت، نمرودیت کی خدائی اور اسی طرح کی دیگر بیماریوں نے انسانیت کے رحمدلی اور نیک نیتی والے خصائل پر قابو پایا اور دنیائے بحر و بر میں ایک ایسا فساد برپا کردیا کہ جس کے نتیجے میں حالہ جیسی معصوم بچیاں آج سوال کر رہی ہیں کہ ہمیں کس قصور میں دفن کردیاگیا ہے؟
غزہ کے حالات کی وجہ سے عید الفطر کے یہ دن بہت سوگواری سے گزرے ہیں۔ سوچتا ہوں، ننھی یتیم بچی حالہ اب ہمارے آفس کو کبھی کوئی خط نہیں لکھ پائے گی، ڈاکٹر بھی نہیں بن سکے گی، ماں بھی نہیں بنے گی بلکہ زندگی کی کوئی خوشی بھی نہیں دیکھ پائے گی کیونکہ وہ اب ہزاروں ٹن کنکریٹ کے نیچے دفن ہوچکی ہے۔ صرف اس لئیے کہ اسرائیل کی سیکورٹی کو خطرہ ہے؟ امریکہ کے ورلڈ آرڈر میں اسرائیل کا وجود اتنا ضروری ہے کہ جس کیلئے یتیم بچی حالہ کی زندگی کی کوئی اہمیت اور گنجائش نہیں۔ ناانصافی کے اس نظام کو تقویت دینے والے ہر فرد کو آج یہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ اپنی آسائشوں اور نام نہاد سیکورٹی کیلئے، حالہ جیسے پیارے اور معصوم بچوں کے قتلِ عام کو روکنا بھی ان کا ہی فرض ہے کیونکہ معصوم حالہ کا یہ سوال تو موجود رہے گا کہ:
بِیِ ذنب قتِلت!!
بائیڈن اور بلنکن کے اس دور میں، پچاس سے زائد آزاد مسلم ممالک پتہ نہیں کیوں اتنے بے بس ہیں کہ غزہ میں ہونے والے مظالم انہیں نظر ہی نہیں آتے۔ باقی ساری انسانیت بھی زبانی کلامی باتوں کے علاوہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھا پا رہی۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں عام پبلک تو بھرپور احتجاج کر رہی ہے لیکن بین الاقوامی ورلڈ آرڈر اس قدر انجماد کا شکار ہے کہ زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد کے مصداق اپنی طرزِ کہن پہ اڑا ہوا ہے۔ بہرحال یہ کٹھن منزل بھی کٹ ہی جائیگی اور جلد ہی سینہ چاکانِ چمن کو دیگر سینہ چاک آملیں گے۔
علامہ اقبال نے بھی تو یہی امید دلائی ہے۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
نال صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خونِ گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلو خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغم توحید سے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here