APPNA ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،د کھانے کے اور

0
54
جاوید رانا

قارئین محترم! ارادہ تو یہی تھا کہ یہ کالم بھی وطن عزیز میں دن بہ دن بدلتے ہوئے سیاسی حالات و عدم استحکام کے حوالے سے تحریر کیا جائے لیکن بعض اوقات کچھ ایسے واقعات رو پذیر ہو جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں اظہار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے یہ عمومی تاثر ہے کہ وطن عزیز کیلئے ان کا جذبۂ حب الوطنی اور کردار ملک میں مقیم پاکستانیوں سے زیادہ فزوں تر ہے، اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں۔ گزشتہ 45 برس سے امریکہ میں رہتے ہوئے ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ پاکستان میں جب کسی قسم کی آزمائش کا وقت آیا ہے خواہ وہ سیاسی، معاشرتی، معاشی یا دیگر قدرتی و ارضی آفات ہوں یا وطن عزیز کے عالمی اُفق پر مثبت و روشن امیج پاکستان کی معاشرت و ثقافت کا ابلاغ کا معاملہ ہو۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے انفرادی و تنظیمی سطح پر حب الوطنی و مثالی کردار کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اور پاکستانیت کے تناظر میں یو ایس اے بلکہ شمالی امریکہ میں پاکستانی مسیحائوں کی بہت سی تنظیمیں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی خدمات قابل تعریف ہیں۔
ان مسیحائی کی تنظیموں کی قیادت کی دعویدار گزشتہ 46 برسوں سے ایسوسی ایشن آف فزیشنز آف پاکستانی ڈیسنٹ آف نارتھ امریکہ ہے جسے عرف عام میں APPNA کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ اپنا کے منشور میں کہا گیا ہے کہ یہ پاکستانی ڈاکٹرز کو یکجا کرنے کے بنیادی فرض کی ادائیگی کیساتھ وطن عزیز کے بہترین امیج، سماجی، فلاحی، ثقافتی روایات اور یہاں مقیم پاکستانیوں کو ان کے متعلقہ شعبوں میں پروموٹ کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے یا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں، دکھانے کے اور؟ گزشتہ ہفتے شکاگو میں اپنا کے چار روزہ اسپرنگ اجلاس میں ہم نے جو تماشے اور اس تنظیم کے منشور و پاکستانی کمیونٹی کیخلاف خصوصاً پاکستانی میڈیا مخالف روئیے اور کردار دیکھے وہ کسی بھی طرح محب وطن پاکستانیوں کے معیار پر پورے نہیں اُترتے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ” اب یہ فیصلہ کون کرے کہ ان تمام معاملات کی ذمہ داری اپنا کے مرکزی صدر ڈاکٹر آصف محی الدین کے سر جاتی ہے یا شکاگو کے چیئرمین ڈاکٹر ساجد محمود کے سر پر ہے۔ 25 سے 28 اپریل تک مختلف سیشنز میں یہ حقیقت واضح نظر آئی کہ پاکستانی میڈیا کو نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ کوئی اہمیت دینے سے بھی رُوگردانی کی گئی۔ پاکستان نیوز واحد پاکستانی اخبار ہے جو امریکہ کی تمام ریاستوں کے علاوہ کینیڈا میں بھی شائع ہوتا ہے اور پاکستانی قارئین ابلاغ کا واحد ذریعہ ہے۔ راقم الحروف شکاگو لینڈ ہی نہیں پورے مڈ ویسٹ میں ہونیوالی سرگرمیوں، خبروں، رپورٹس و تقریبات کی کوریج، اشاعت و تقسیم کا بطور سربراہ فرائض کی ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ یہ اخبار آن لائن بھی تمام سوشل میڈیا پر موجود ہوتا ہے۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ پاکستانی میڈیا کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر عامل افراد کو فوقیت دی گئی بلکہ شدید افسوس اس بات پر ہے کہ 28 تاریخ کو منعقدہ پولیٹکل سیشن جو پاکستان کے حوالے سے صورتحال پر مبنی تھا، ایک ایسے بھارتی نژاد سریش بودی والا کو کوریج و تصویر کشی کیلئے منتخب کیا گیا جو سیشن میں سینے پر بھارت کا بیج لگا کر کام کرتا رہا، جو عامل صحافی بھی نہیں ہے اور سوشل میڈیا پر تصویریں ڈال کر ڈالر کھرے کرتا ہے۔ آخر یہ سب شکاگو کے کرتا دھرتا ڈاکٹر ساجد محمود نے کیا ہوگا جس پر اپنا کے سینئرز و مقتدر ڈاکٹر طارق بٹ اور ڈاکٹر مرتضیٰ آرائیں نے شدید احتجاج و اعتراض بھی اُٹھایا۔ یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر ساجد محمود کو اجلاس کی میزبانی و چیپٹر کی سربراہی ”ناریل ہاتھ لگا، جس کے وہ بندر میں ہوں” کے مصداق تھی اور فیصلہ سازی بندر کے ہاتھ میں ڈُگڈگی کے مترادف۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، کلچرل سیشنز میں بھی غیر دانشمندانہ اور غلط فیصلوں سے اپنا کا ایونٹ متاثر ہوا اور منتظمین کیلئے سُبکی کا موجب بنا۔ ثقافتی سرگرمیوں کے حوالے سے شنید ہے کہ ان کا آرگنائزر، مقبوضہ بھارتی جموں و کشمیر کا ٹیپو احمد ہے جو اپنا کے تمام پروگراموں کو آرگنائز کرتا ہے، اس ایونٹ کے 26 اپریل کی محفل کیلئے مقبول گلوکارہ حمیرہ چنا کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حمیرہ کو امریکی انٹری ویزہ ہی نہ ملا۔ سوال یہ ہے کہ گلوکارہ کے ویزہ کنفرمیشن کے بغیر ہی مہنگے ترین ٹکٹوں کی فروخت کرکے اور بعد میں غیر معروف گلوکاروں سے سامعین یا شرکاء کو مایوس کرنا اپنا کے ذمہ داروں کی سوچی سمجھی اسکیم تھی یا متذکرہ بھارتی نژاد آرگنائزر کی نا اہلی کا بھگتوان؟
ہمیں یقیناً اپنا کی اہمیت اور پاکستان و پاکستانیوں سے محبت پر کوئی شبہ نہیں نہ ہی بحیثیت نمائندہ تنظیم کوئی اعتراض ہے البتہ ان کے بعض فیصلے ان کی انتظامی صلاحیتوں پر لوگوں میں سوالات یقیناً اُٹھا کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا سطور میں دیئے ہوئے اقدامات مثلاً پاکستانی میڈیا کو نظر انداز کرنا، پاکستانیوں کے برعکس بھارتی قومیت کے لوگوں کو فوقیت دینا کیا پاکستان نژاد تنظیم ہونے کے دعوے کی نفی نہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ مرحوم بھٹو کے دور یا بعد میں تعلیمی وظائف کی بناء پر بیشتر ڈاکٹر یہاں آکر مالدار اور کروڑوں کے امیر تو ہو گئے ہیں لیکن ان کے اندر کی غربت اب بھی برقرار ہے اور وہ اس سے نکل نہیں سکتے۔ ایسے لوگوں کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انتظامی و اخلاقی صفات میں محروم نہ سہی معروف نہیں ہو سکتے اور محض نبض و گلا چیک کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ ہمیں اپناسے کوئی پرخاش نہیں اپنا پاکستانی فزیشنز کا شمالی امریکہ کا وہ ادارہ ہے جو نہ صرف پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے اہمیت و فخر کا موجب ہی نہیں ایک استعارہ ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے نمائندوں اور ذمہ داروں کے انتخاب میں اعلیٰ قدروں اور پاکستانیت کی روح سے واقف ہونے والے منتخب ہوں ورنہ لوگ یہی کہیں گے ”اوج پر ہے، کمال بے ہنری” تکبر اور غرور اللہ کی چادر ہے اور بندوں کا تکبر اللہ سے لڑائی ہے، التماس ہے کہ غرور کی لعنت سے گریز کیا جائے، مسیحائوں کو ویسے بھی مشفق اور انسان دوست کہا جاتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here