تاریخ گواہ ہے کہ یورپ میں لاکر آباد کیئے گئے صدیوں پرانے یہودیوں پر 20ویں صدی میں جو کچھ ہوا کہ جس میں ہولوکوسٹ کے نام پر لاکھوں یہودی، خانہ بدوش، کمیونسٹ اور ہم جنس پرست مارے گئے جن کے بارے میں بعض نے لکھا کہ عیسائی جرمنوں نے یہودیوں سے حضرت عیٰسی علیہ السلام کا بدلہ لیا تھا جن کے ایما پر حضرت عیٰسی علیہ السلام کو سولی پر لٹکایا گیا تھا۔ بعض نے فرمایا کہ یہودیوں کا کاروبار اور سرمایہ داری پر اجارہ داری ہوچکی تھی۔ بعض کہہ رہے تھے کہ یہودی جرمن کے خلاف جاسوسی کر رہے تھے۔ جسکا پورا یورپ یہودیوں کیلئے جہنم بن گیا تھا۔ 20ویں صدی میں تقسیم ہند کے وقت پنجابیوں نے ایک دوسرے کا گلہ کاٹا جس کا جواز یہ تھا کہ تین سو سال پہلے مغلیہ خاندان کے بادشاہ اورنگزیب نے سکھ پنجابیوں کے بارویں گرو گروبندرسنگھ کے بچوں کو دیوار میں چنوا دیا تھا۔ جس کا سکھوں نے تین سو سال بعد اپنے ہی پنجابی مسلمانوں سے بدلہ لیا تھا۔ 1971ء میں پاکستانی فوج نے بنگالی مسلمانوں پر جو ظلم وستم ڈھایا تھا جس میں لاکھوں بنگالی عوام مارے گئے تھے جو ناقابل بیان ہوچکا ہے۔ جو بنگالی اب تک نہیں بھول رہے ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں سے سائوتھ افریقہ کے سیاہ فاموں کے ساتھ سفید فاموں نے جو کچھ کیا تھا وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کی آزادی کے متوالے نیلسن منڈیلا نے ان زخموں جس طرح دھویا ہے وہ بھی ناقابل فرمواش ہے کہ جنہوں نے فتح مکہ پر نقش قدم پر چل کر بدلہ لینے کی بجائے لوگوں متحد کیا۔ آج جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے کہ ایک ہی زبان کلچر رسم و رواج تہذیب وتمدن کے حامل مسلمانوں پر سرکاری اور غیر سرکاری طور پر ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل برداشت ہوچکا ہے۔ یا پھر یورپ اور امریکہ میں نئے آبادکاروں کے خلاف سفید فاموں کا نظریہ نفرت اور حقارت پایہ جارہا ہے وہ بھی کل کلاں رنگ لائے کا کہ جس میں امریکہ میں لاطینی آباد کاروں کو ملک بدری کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ جو آج امریکہ کی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں کہ جن کے بغیر شہروں اور دیہاتوں کی صفائی ستھرائی کھیتی باڑی ناممکن بن چکی ہے۔ تاہم پاکستان میں تین صدیوں میں پنجابیوں کے خلاف نفرت اور حقارت دن بدن زور پکڑ رہی ہے کہ جس میں پنجابی مزدوروں، محنت کشوں اور کسانوں کو مارا جارہا ہے جس کا جواز پاکستان کی فوج کی حکمرانی رہی ہے جس میں جنرل ایوب خان جنرل موسیٰ خان، جنرل یحٰیی خان، جنرل گل حسن، جنرل جہاں زیب، جنرل اور بڑے بڑے جنرل پٹھان تھے۔ آدھا پنجابی آدھا مہاجر جنرل ضیاء الحق یا پھر جنرل مشرف دہلوی تھا جنہوں نے پاکستان کے آئین توڑے۔ مارشلا نافذ کئے۔ منتخب حکومتوں پر قبضے کئے ملک پر دہائیوں حکمرانی کی ہے جس کا غم وغصہ غریب، مزدور، محنت کش اور کسان پنجابیوں پر نکالا جاتا ہے۔ کہ وہ پنجابی میں جبکہ ان کا جنرل کریسی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ بے چارے روزگار کے لئے کبھی دوبئی اور یورپ جانے والی کشتیوں میں ڈوب جاتے ہیں کبھی وہ بلوچستان اور پختونخواہ کی سرحدوں پر مارے جاتے ہیں۔ اگر اس نسل پرستی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر وہ دن دور نہیں ہے کہ یہ نسل پرستی پنجاب میں پیدا ہوجائے گی کہ پنجاب میں صدیوں سے آباد پٹھان بلوچ، ایرانی طرانی، عربی اور نہ جانے کون کون سی پنجاب میں آباد نسلیں نہ ماری جائیں گی۔ یہ جانتے ہوئے کہ پنجاب میں بھی لاکھوں کی تعداد میں پٹھان اور کروڑوں میں بلوچ آباد میں جو بلوچستان سے زیادہ ہیں۔
خدارا نسل پرستی کے نام پر لوگوں کا قتل مت کرو کہ کہیں یہ حقیقت بن کر پاکستان میں انسانیت کے قتل کا باعث نہ بن جائے۔ یقیناً پاکستان کے عوام کے مسائل گھمگیر بن چکے ہیں جس میں جنرلوں کی زیادتیاں سرفہرست میں جس کے لئے مشترکہ اور متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے جس طرح ماوزئے تنگ نے چین کے آمروں، جابروں، جاگیرداروں کا خاتمہ کیا۔ لینسن نے زاروں کو ملیامیٹ کیا۔ ہوچی منہ نے ویٹ نام کو متحد کیا لہٰذا پاکستان کے غاصبوں، قابضوں اور استحصالیوں کے خلاف ایک متحدہ جنگ لڑنا ہوگی ورنہ پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کے باوجود صدیوں کے عوام اپنے اپنے جاگیرداروں، وڈیروں سرداروں میروں اور رسہ گیروں کے غلام بنے رہیں گے۔ اتحاد کا مطلب یونین یا فیڈریشن جس کو بچانا دراصل انسانوں کو بچانا ہے ورنہ ایک خوفناک وسیع ترین خانہ جنگی کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں جس میں انسانیت مٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس کا دنیا کا کوئی بھی نظریہ حیات اجازت نہیں دیتا ہے کہ غریب کو غریب مار ڈالے۔
٭٭٭٭