ہمارا ارادہ تو یہاں ہمارے شہر میں 18 اگست کو جشن آزادی کے حوالے سے کلچرل ڈے کے تاریخی کنسرٹ پر اظہار خیال کا تھا لیکن ”ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے”۔ کے مترادف وطن عزیز کے دگر گُوں حالات دیکھ کر میری سوچ کا راہوار گھوم پھر کر ملکی غیر یقینی کی جانب ہی مُڑ جاتا ہے۔ گزشتہ کالم گل ودھ گئی اے میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر خاکسار نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا اور ملکی سالمیت کے حوالے سے خوفناک نتائج کا ذکر کیا تھا، سوموارکے روز اس پیش بینی کے مظاہر بلوچستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور افسروں کی شہادتوں کی صورت میں اس حقیقت کی عکاسی تھی کہ سیاسی محاذ آرائی عصبیت کی نفرت میں تبدیل ہو رہی ہے اور اس میں وطن دشمنوں کو کُھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ گو کہ ہماری سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی میں حملہ آوروں کو جہنم رسید کر دیا لیکن کیا یہ اس امر کی غمازی نہیں کہ آپس کی لڑائی میں ہمارے محافظ اداروں اور لنگڑی لولی حکومت کو حالیہ سیاسی تنازعتی صورتحال نے ملکی سالمیت کے فریضہ سے بے خبر نہ سہی کمزور ضرور کر دیا ہے اس حقیقت کے باوجود کہ عزم استحکام کی کامیابی اور خوارجیوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے ہمارے وطن کے محافظ مسلسل لہو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ملکی امن و امان کی صورتحال میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی اور دشمن قوتیں اور ان کے گماشتے پاکستان دشمنی میں ہر حربہ بہ آسانی آزما رہے ہیں۔
معاملہ محض وطن دشمنوں کی کارروائیوں پر ہی منحصر نہیں، گزشتہ ہفتے رحیم یارخان کے کچے کے علاقے میں 12 پولیس کے جوانوں کی شہادت اور 8 کی مضروبیت کا سانحہ یقیناً قومی نقصان تو ہے لیکن اس سے بڑھ کر فارم 47 کی محتاج حکومت کا بڑا فیلیور بھی ہے جو انتظامی، لاء اینڈ آرڈر اور عوام کے تحفظ پر اپنی توجہ اور عمل کے برعکس عمران و پی ٹی آئی مخالف مقتدرین کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہے اور قومی و عوامی مفاد کے امور کے حوالے سے مکمل ناکام ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں استدعا کی تھی کہ دو بڑوں کی ذاتی مخاصمت کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے جہاں معاملہ آئین، اداروں اور جمہوریت کی نفی اور ریاست کی کمزوری پر پہنچ جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ وطن عزیز کے ارباب اقتدار، ذمہ داران اور اداروں کو اس بات کا کوئی احساس یا ادراک نہیں ہے اور وہ اپنے ارادوں اور مفاداتی اقدامات سے گریزاں ہونے پر قطعی تیار نہیں۔
مثل مشہور ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے لیکن وطن عزیزکے موجودہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ دوسرا ہاتھ کسی بھی طرح تالی بجانے اور حالات کی بہتری کیلئے تیار نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال کی خاطر اور اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر نیز مقتدر ذمہ داران کے کہنے پر عمران خان کے 22 اگست کے جلسے کو ملتوی کیے جانے پر اسٹیبلشمنٹ کے کھونٹے پر کھڑی حکومت کے بھونپوئوں نے تو جو منفی و منکرانہ کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ، پالتو میڈیا نے بھی کوئی کسرنہ چھوڑی اور عمران کے اس مثبت فیصلے کو خان کی پسپائی اور مقتدرین سے ڈیل، پی ٹی آئی میں تقسیم حتیٰ کہ خان کے ڈیل کے تحت لندن روانگی کے دعوے کئے۔ جہاں تک ہم خان سے واقف ہیں وہ کسی بھی قیمت پر بیک آئوٹ کرنے والا نہیں نہ ہی کسی بھی ظلم کے آگے جھکنے والا ہے۔ فیض حمید کے حوالے سے فیلڈ کورٹ مارشل کو بنیاد بنا کر کپتان کے حوالے سے طرح طرح کے مفروضوں اور اقدامات کا ابلاغ کیا جانا حتیٰ کہ بشریٰ بی بی کے وعدہ معاف گواہ بننے کی خبریں صرف اس لئے پھیلائی جا رہی ہیں کہ اس طرح خان کے مضبوط ارادوں میں دراڑ ڈالی جائے اور پی ٹی آئی میں بد دلی اور تقسیم کی جا سکے لیکن عمران کی مضبوط فطرت اور عمران کی عوام میں محبت اور بھرپور مقبولیت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو مفروضوں اور بے بنیاد پروپیگنڈے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بادی النظر میں یہی منظر نامہ واضح ہے کہ مقتدرہ اپنی انا اور ضد پر قائم رہتے ہوئے عمران کو سیاسی ایرینا سے ہٹانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے لیکن ایک محب وطن اور تین دہائیوں سے صحافتی تجربہ رکھتے ہوئے ہمارا تجزیہ ہے کہ موجودہ حالات پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کے حق میں ہر گز نہیں جا سکتے ہیں اور پاکستان دشمنوں کو ان کے مقاصد کی تکمیل کیلئے معاون و موافق ہیں۔ وطن اور عوام کے تحفظ و سکون کا واضح راستہ صرف اس نکتے میں ہے کہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر افہام و تفہیم کے ذریعے تمام اسٹیک ہولڈرز پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور مضبوطی کے منشور پر یکجا ہوں، استحکام کے عزم اور وطن کے بیٹوں کے تحفظ کا راستہ یہی ہے۔ موجودہ حالات اس حقیقت کا مظہر نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے تمام ادارے ناکامی و تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائیں۔
٭٭٭٭