میرے لیے یہ امر باعثِ صد مسرت و مباہات ہے کہ باغ آزاد کشمیر میں آسمانِ ادب پر جگمگاتے ستاروں نے شبِ یلدا کی تاریکی کو کافور کر دیا ہے۔ پونچھ نے جید علما، فضلا، ادبا اور شعرا کو جنم دیا، ادب کی دنیا میں آج بھی پونچھ سے متعلق ادبی شخصیات کرشن چندر، چراغ حسن حسرت اورتحسین جعفری کی ادبی خدمات تابندہ و پائندہ ہیں۔اُجالوں کا سراغ دلشاد اریب کے شخصی خاکوں پر مبنی کتاب ہے، آپ کا تعلق ضلع باغ آزاد کشمیر سے ہے، اس سے قبل آپ کی پانچ کتب شائع ہو کر مقبولِ عام کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ آپ شاعر، استاد، محقق، ادبی نقاد اور کالم نگار ہیں، آپ کی ادبی خدمات لائقِ صد تحسین ہیں، علامہ اقبال نے کہا تھا!
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوں کا سراغ
یہ اُجالوں کا سراغ ہو یا آتشِ رفتہ کا سراغ اصل میں یہ مرزا غالب کا طلسمِ گنجین معانی ہے جب وہ کہتے ہیں!
گنجین معانی کا طلسم اِسے سمجھیے
جو لفظ بھی غالب میرے اشعار میں آوئے
دلشاد اریب کے اِن خاکوں میں جو بھی لفظ آیا ہے ،وہ اس شخصیت کا اختصار کے ساتھ فطری اور حقیقی نقشہ ہے جس کا مبالغہ آرائی سے کوئی واسطہ نہیں، خاکہ نگاری اور سوانح نگاری کا فرق واضح ہے۔ خاکہ نگاری اجمال نگاری ہے جو اختصار کی متقاضی ہے۔ دلشاد اریب نے کچھ کتاب کے بارے میں مضمون لکھ کر خاکہ نگاری کی تاریخ کو اتنی تفصیل سے لکھ دیا ہے کہ اِس موضوع پر مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ آپ نے انگریزی اور اردو ادب کے قدیم اور جدید خاکہ نگاروں کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے وسیع مطالعے کا غماز ہے۔ اپ نے قطرے میں دریائے دجلہ کو بند کر دیا ہے۔ گویا بقول نظیری نیشا پوری!
ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست
یہ کتاب گلدست گلہائے صد رنگ ہے، اس میں مذہبی، علمی، ادبی اور سماجی شخصیات کے خاکے ہیں جو نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ میری جنم بھومی پونچھ میں علم و ادب کے چراغ روشن ہیں اور وہ آج بھی شبِ تیرہ و تاریک میں اُجالوں کا سراغ لگانے میں مشغول ہیں۔ اِن چراغوں میں ایک چراغ دلشاد اریب ہے۔
٭٭٭















