فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
6

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! میت کے پاس فرشتے آتے ہیں مئومن کو بشارت دیتے ہیں اور کافر کو ڈراتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرمۖ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی کہ ہم پہنچ گئے۔ نبی کریمۖ تشریف فرما ہوئے اور ہم بھی بیٹھ گئے اور ہماری حالت یہ تھی کہ جیسے ہمارے سروں پر پرندے ہوں یعنی گردنیں جھکائے بیٹھے تھے۔ آپۖ کے پاس لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے آپۖ نے سر اقدس اٹھایا اور دو یا تین مرتبہ فرمایا: عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو پھر ارشاد فرمایا: جب بندہ مئومن اس دنیا سے جانے والا ہوتا ہے اور آخرت کی طرف توجہ کرتا ہے تو آسمان سے فرشتے اُترتے ہیں جن کے چہرے سفید اور سورج کی طرح چمکدار ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ جنتی کفن اور خوشبو لاتے ہیں اور حد نگاہ تک پھیل کر بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت مرنے والے کے سرہانے آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ اے پاک نفس! اللہ تعالیٰ کی رضا اور مغفرت کی طرف آ تو اس کا نفس ایسے بہہ نکلتا ہے جسے شکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے۔ پھر ملک الموت اس کی روح کو قبض کرتے ہیں تو وہ فرشتے اسے ایک لمحہ بھی ملک الموت کے پاس نہیں رہنے دیتے اور لے کر اسے جنتی کفن پہناتے اور خوشبو لگاتے ہیں۔ پھر اس سے روئے زمین کی بہترین خوشبو مہکتی ہے پھر اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور جب ملائکہ کی جماعت کے قریب سے گزرتے ہیں تو ملائکہ پوچھتے ہیں یہ خوشبو کیسی ہے؟ فرشتے اس کا نام بتاتے ہیں جو دنیا پر اس کا عمدہ اور خوبصورت نام تھا حتیٰ کہ وہ اسکو آسمان دنیا پر لے کر پہنچتے ہیں اور اس کا دروازہ کھلواتے ہیں تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کے پیچھے دوسرے آسمان تک جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے کے اعمال جلّیّین میں لکھو اور اسے دوبارہ زمین پر لے جائو کیونکہ میں نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے اور مٹی میں ہی لوٹائوں گا اور مٹی سے ہی دوبارہ اٹھائوں گا پھر مردہ کی روح اس کے جسم میں دوبارہ آجاتی ہے اور فرشتے اسے آکر اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون تھے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے پھر پوچھتے ہیں کہ یہ شخصیت جو تم میں بھیجے گئے ہیں کون ہیں؟ وہ کہتا ہیں محمد رسول اللہ ہیں ۖ پھر پوچھتے ہیں کہ تمہارا علم کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب کو پڑھا اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی تو آسمان سے منادی پکارتا ہے میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا فرش بچھا دیا جاتا ہے جنتی لباس پہنا دیا جاتا ہے اور جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ تاکہ جنت کی ہوائیں اور خوشبو آئے۔ اس کی قبر کو تا حد نگاہ وسیع کردیا جاتا ہے۔ پھر اس کے پاس ایک نورانی چہرے، خوبصورت لباس اور بہترین خوشبو والا شخص آئے گا اور کہے گا۔ تجھے مبارک ہو یہ تیرے وعدہ کئے جانے کا دن ہے۔ توقبر والا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے خیر ظاہر ہو رہی ہے تو وہ کہے گا کہ میں تیرا نیک عمل ہوں جو تو نے دنیا پر اللہ کی رضا کے لئے کیا تھا وہ صاحب قبر کہے گا یا اللہ! قیامت قائم فرما دے تاکہ گھر والوں کو بتا سکوں۔ نبی کریمۖ نے فرمایا کہ جب کافر مرنے کے قریب ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے کمبل لے کر اترتے ہیں اور حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر مُلک الموت اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح! اللہ تعالی کے غضب اور ناراضگی کی طرف نکل تو اس کی روح جسم میں پھیل جاتی ہے اور پھر فرشتہ اس کی روح کو جسم سے اس طرح سختی سے کھینچتا ہے جس طرح کانٹے دار لوہے کی سیخ کو ادن سے، اور جب وہ روح کو نکالتا ہے تو فوراً فرشتے اس کو لے لیتے ہیں۔ اور کمبل میں لپیٹ لیتے ہیں تو اس سے بدترین مردار کی بدبو نکلتی ہے پھر فرشتے اس کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں جب ملاء اعلیٰ میں پہنچتے ہیں تو وہاں رہنے والے فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ بدترین خبیث روح کون ہے؟ تو فرشتے اس کا بدترین نام لیتے ہیں جس سے وہ دنیا میں یاد کیا جاتا ہے پھر اس کو آسمان کی طرف لے کر پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن دروازہ کھولا نہیں جاتا۔ پھر حضور نبی کریمۖ نے قرآن مجید کی ہدایت کریمہ تلاوت فرمائی ترجمعہ: ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا کہ اس کا نامہ اعمال سجین میں لکھو۔ اور لکھ کر سجین میں پھینک دو جوکہ نچلی زمین میں ہے۔ پھر حضور نبی کریمۖ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ترجعہ: اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا اور اس کو پرندوں نے اُچک لیا اور ہوائوں نے اسے دور پھینک دیا پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ مذکورہ تینوں سوال کئے جاتے ہیں لیکن یہ کسی کا جواب بھی نہیں دے سکتا تو پھر اس کی قبر کو جہنم کا ماحول بنا دیا جاتا ہے۔ برا سلوک سزا کی صورت میں شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے زندگی شان سے ہو اور خاتمہ ایمان پر ہو۔ اور شفاعت کبریٰ نصیب ہو(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here