روڈی جیولیانی سے کون واقف نہیں ؟ یہ وہی روڈی ہیں جن کا غرور و تکبر اپنے دور اقتدار میں آسمان سے باتیں کرتا تھا، نائن الیون کے فورا” بعد جب سعودی عرب کے ولی عہد طلال بِن عبدالعزیز السعود اُنہیں دس ملین ڈالر کی ایک چیک متاثرہ افراد کی امدا کیلئے پیش کی تو روڈی نے اُسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، وجہ اِس کی یہ تھی کہ چیک کے ساتھ ایک تعزیت نامہ اور ایک پریس ریلیز بھی منسلک تھی جس میں ولیعہد نے یہ عرض کیا تھا کہ ” میں تمام قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں اور اُسی کے ساتھ اِس المناک اور ہولناک واقعہ پر سعودی عرب کے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں” تاہم پریس ریلیز امریکی حکومت کے نام تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ” اِس رنجیدہ موقع پر ہمیں اُن تنازعات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے جس کی وجہ کر ایسے مجرمانہ حملے وقوع پذیر ہوے ہیں، ہمارے فلسطینی بھائی مسلسل اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیںاور دنیا کے دوسرے ممالک نے اپنا چہرہ اُن کی جانب سے موڑ لیا ہے، یہ ہمارا ادراک ہے کہ امریکی حکومت کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں اپنی پالیسی کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اِسے فلسطینی کے مسائل پر ایک متوازن حکمت عملی اپنانی چاہئے”مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ بعد ازاں میئر روڈی نے چیک قبول کرلی تھی۔ میئر روڈی نے یہودی لابی کو خوش کرنے کیلئے پی ایل او کے سربراہ مرحوم یاسر عرفات کے ساتھ بھی ایک مرتبہ بڑی بدتمیزی کی تھی اور اُنہیں نیویارک سٹی کی جانب سے پیش کئے جانے والے ایک کلچرل شو سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ تہذیب و اخلاق کوئی شخص اپنے والدین سے سیکھتا ہے ، لیکن روڈی جیولیانی کے والد تو اپنے گھر میں جوا خانہ کھولا ہوا تھا اور ڈاکہ زنی، قاتلانہ حملے کے جرم میں جیل گئے تھے.اُن کی اِسی کرتوت کی سزا ہے کہ وہ آج در در مارے مارے پھر رہے ہیں اور اُنہیں اُن کے ساڑھے چھ ملین ڈالر کے اپارٹمنٹ سے نکالا جارہا ہے، مسٹر جیولیانی نہ صرف اپنے اپارٹمنٹ سے ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ اِس کے ساتھ وہ بہت ساری دوسری چیزیں جن سے اُنہیں بڑی الفتیں تھیں وہ بھی اُن کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہیں، مثلا”اُن کی واحد مرسڈیز گاڑی جو اُنہوں نے بیس ہزار ڈالر میں خریدی تھی اور جو 80 ہزار میل چل چکی ہے ، بھی دائو پر لگی ہوئی ہے ، 26قیمتی ڈیزائینر گھڑیاں اور تین یانکی کی ورلڈ سیریزکی اسپورٹس انگوٹھیاں جنہیں اُنہیں یانکی اسٹیڈیم کے مالک جارج اسٹائن برینر نے دیا تھا شارک ذہنیت کے لوگوں کا نشانہ بنی ہوئیں ہیں لیکن مسٹر جیولیانی کا اصل ہیرا 66th. اسٹریٹ کے دسویں منزل پر اُن کا تین بیڈ روم کا اپارٹمنٹ ہے جو ایسٹ سائڈ پر واقع اور لوگوں کی توجہ کا مرکزہے، مسٹر جیولیانی اُس اپارٹمنٹ میں اپنی بیگم جودی جیولیانی کے ساتھ ٹھیک ستمبر الیوین کے کچھ دِن بعد منتقل ہوے تھے ، اور جب اُنہیں آفرا وینفرے نے ” امریکا کا میئر” قرار دیا تھا، یہ لقب ستمبر الیوین کے بعد اُن کی غیر متزلزل لیڈر شپ اور انتھک محنت کی وجہ سے دیا گیا تھاتاہم 2021 ء میں مسٹر جیولیانی کو بہت کٹھن دِن دیکھنے پڑ گئے اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے اُن کے اپارٹمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا، وہ یہ تفتیش کررہے تھے کہ بحیثیت ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی اٹارنی کے کہیں مسٹر روڈی لابیئنگ لاء کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہے ہیں.2023ء میں مسٹر جیولیانی نے اُس اپارٹمنٹ کو ساڑھے چھ ملین ڈالر میں فروخت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خاطر خواہ کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی، مسٹر جیولیانی بینکرپٹسی بھی ڈیکلیئر کرچکے ہیں جس کی رو سے اُنہیں ایک رہائش گاہ کو رکھنے کی اجازت ہوگی. مسٹر جیولیانی کے پاس فلوریڈا میں ایک دوسرا مکان بھی ہے، یہ ساری قیمتی اشیا کو فیڈرل کورٹ نے فروخت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ حرجانے کادعویٰ جسے روبی
فری مین اور اُس کی بیٹی شا ماس نے دائر کیا تھا اور جس کا فیصلہ روڈی جیولیانی کے خلاف آیا ہے اور اُنہیں مذکورہ اشخاص کو بدنام کرنے کی سزا پر 148 ملین ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، مسٹر جیولیانی نے روبی فری مین اور اُس کی بیٹی شا ماس جو الیکشن کی پول ورکرز تھیں پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ دونوں نے 2020 ئ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کو صدر ٹرمپ سے چھیننے کی کوشش کی تھیں جس کی وجہ کر دونوں افراد کی جان کو خطرہ اور مبینہ تشدد کا نشانہ بننے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، مسٹر جیولیانی نے متعدد مرتبہ میڈیا پر آ کر اپنے الزامات کو دہرایا تھا،مسٹر جیولیانی جو خود بھی ایک فیڈرل پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں اور اُن پر دو اسٹیٹس کی جانب سے کریمنل چارجز کا بھی سامنا ہے ، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے باوجود اُنہیں اقتدار میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، مسٹر جیولیانی اِن دنوں کورٹ آرڈر اپنے شناسا کو ای میل کر رہے ہیںاور اُن سے عدالتی فیس کیلئے چندہ دینے کی اپیل کر رہے ہیں. ای میل میں وہ لکھتے ہیں کہ ” وہ ہمارے مکان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے مال و اسباب پر قابض ہونے کے خواہشمند ہیں. ہماری اُن ساری چیزوں کو وہ چھین لینا چاہتے ہیں جنہیں اُنہوں نے اپنی زندگی کے 80 سال تک جمع کیا تھا اور جو اُن کی زندگی کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، لیکن وہ کبھی بھی اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔”