مملکتِ خداداد پاکستان کے ریاستی اور حکومتی نظام میں بھل صفائی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ ریاست کے تقریبا ہر شعبہ پر سوشل میڈیا سے لیس نوجوان کاری ضربیں لگا رہے ہیں۔ سیاست، معاشرت ، تجارت، معیشت، عدالت، نظامت اور خاص طور پر آمریت اِیک زبردست طوفانِ باد و باراں کی زد میں ہیں۔ منافقت اور ظلم سے بھرپور نظام، خلقِ خدا کی ٹھوکروں کی بدولت لرزاں ہے اور واضح نظر آرہا ہے کہ آج ڈوبا یا کل۔ مایوسی کا شکار لوگ بھی امید کی کرنیں دیکھ رہے ہیں۔ خون کے دھبوں نے آخر دھلنا تو ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کتنی اور برساتیں درکار ہونگی۔ میں ڈھاکہ (بنگلہ دیش) سے واپسی پر فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا تھا کہ!
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
پاکستان میں تو ہم سقوطِ ڈھاکہ، دسمبر کو بس ایک ہی دن میں منا لیتے ہیں لیکن یہ سانحہ صرف ایک دن میں وقوع پذیر نہیں ہوگیا تھا۔ بنگلہ دیش کے شہری بتاتے ہیں کہ انہیں اپنی آزادی حاصل کرنے میں کئی دہایاں لگی تھیں۔ پاکستانیوں کو بھی اپنی جدوجہدِ آزادی کئی دہائیوں تک جاری رکھنی ہوگی۔ اس دوران ملک زادہ منظور احمد کا یہ شعر بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
اسلام آباد میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد، انسانی لاشیں ڈھونڈنے کا عمل جاری ہے۔ عجیب بات ہے کہ قاتلوں کی طرح مقتولین کے ورثا اور ساتھی بھی اِن لاشوں کو چھپا دینا چاہتے ہیں۔ یہ بوجھ کوئی نہیں اٹھانا چاہتا۔ ایک روایت ہے کہ کربلا کے میدان میں، دس محرم کی شام کے وقت، یزیدی فوج نے شہدا کے لاشوں پر گھوڑے دوڑا دئیے تھے تاکہ یہ قتلِ عام چھپ جائے۔ کوئی بھی فوج جب اپنے اصل دشمن سے لڑتی ہے تو اس کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے کہ ہم نے آج اتنے دشمنوں کو جہنم واصل کردیا ہے۔ جب مقابلہ ان لوگوں سے ہو جو اس کے اپنے ہوں۔ جنہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر مقتدرہ کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی ہو تو پھر یہی اعلان ہوتا ہے کہ نہ کوئی گولی چلی ہے اور نہ کوئی قتل ہوا ہے۔ حضرتِ کلیم عاجز نے اندرا گاندھی کو جب یہ اشعار سنائے تو وہ تاریخ کے اوراق میں امر ہو گئے۔
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی آزادی کی جدوجہد، صرف خون سے ہی سیراب ہوتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کو دہکتی آگ میں کودنا پڑتا ہے اور اسماعیل علیہ السلام کو اپنے رب کی رضا کے مطابق، قربانی کیلئے اپنا سر خم کرنا پڑتا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ!
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
جی ہاں، قوم کو ایک اور امتحان سے گزرنا ہے۔ یہ امتحانات رہتی دنیا تک ختم نہیں ہونگے۔ کبھی آپ ایک اچھی پوزیشن لے کر کامیاب ہو نگے اور کچھ امتحانات میں آپ کمزوری بھی دکھائیں گے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کبھی آپ اپنے آبا و اجداد کی دی ہوئی قربانیوں کے پھل کھا ئیں گے اور کبھی آپ کو اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے قربانی دینا پڑے گی۔ منیر نیازی کا یہ شعر بھی خوب ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہماری ریاست اب اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ اس کا زیادہ دیر تک برقرار رہنا ممکن نہیں۔ فکر کی بات نہیں، ریاستیں تو بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ البتہ عوام اور علاقہ جات تو یہیں قائم و دائم رہیں گے۔ نئی ریاست وجود میں آجائے گی، نیا آئین بن جائے گا اور ہو سکتا ہے وہ نیا نظام ہمارے لئیے زیادہ بہتر ثابت ہو۔ دعا ہے کہ یہ تبدیلی پرامن طریقے سے آئے اور پائیدار ثابت ہو۔ ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار، آج پھر حسبِ حال معلوم ہو رہے ہیں۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹا تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھا تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبا تو دبائے نہ بنے
٭٭٭