فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!
محترم قارئین! امیرالمئومنین، امام المتقین، خلیفہ المسلمین خلیفہ چہارم ابوتراب، شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ساری زندگی نبی علیہ السلام کی اطاعت ومحبت اور اسلام کی مکمل تابعداری میں گزاری۔ اہل حق کو آپ رضی اللہ عنہ کے کردار پر ہمیشہ اور ہر میدان میں فخر رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک فخر رہے گا آپ رضی اللہ عنہ ایسے عالم تھے کہ علم آپ پر ناز کرتا تھا ایسے قاضی تھے کہ عدالت وقضا کو آپ پر ناز تھا۔ ایسے نمازی تھے کہ نماز کو آپ پر فخر تھا اور ایسے صحابی تھے کہ صحابیت آپ پر نازاں ہوتی تھی آپ رضی اللہ عنہ آپ ہی اپنی مثال تھے جرات اور بہادری ایسی کہ باطل کے ایوان صرف آپ کا نام سن کر کانپ جاتے تھے آپ کے حق میں چوتھے خلیفہ اور صحابی ہونے کے ناطے جو بھی کہا جائے برحق اور حقیقت ہے تکلف، بناوٹ اور تصنع نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی علی ہے۔ فاتح خیبر، حیدر اور اسد اللہ کے القابات ہیں۔ ابوالحسن اور ابوتراب آپ کی کنتیں ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ حضورۖ کے سگے چچا ابوطالب کے بیٹے ہیں آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اللہ عنھا ہے آپ سابقین اولین میں انتہائی مکرم ومعظم اور مہاجرین اوّلین میں اور عشرہ مبشرہ میں اپنے درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز اور اعلیٰ وکرم ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ خاتون جنت بنت رسولۖ، حسنین کریمین رضی اللہ عنھا کی والدہ رضی اللہ عنھا کے شوہر نامدار اور حسنین کریمین کے پدربزرگوار ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ وضاحت وبلاغت اور عظمت وخطابت میں عدیم النظیر ہیں آپ خلفاء راشدین میں خلیفہ چہارم جانشین سید عالمۖ ہیں۔ آپ عالم الفصیل کے تیسویں سال جبکہ حضورۖ کی عمر مبارکہ تیس سال تھی13رجب المرجب جمعہ کے دن پیدا ہوئے آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے(مروج المذہب جلد نمبر5ص 175وازالة الخفاء مقصد نمبر2ص251) علماء صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں علمی عظمت کے اعتبار سے آپ کا مرتبہ بہت ہی بلند ہے۔ آپ نے نبی کریم علیہ الصّلواة والسلیم سے پانچ586سو چھیاسی احادیث روایت کی ہیں اور آپ کے فتاویٰ جات اور فیصلوں کا انمول مجموعہ اسلامی علوم کے خزانوں کا بہترین اور قیمتی سرمایہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں اور کبھی یوں بھی دعا مانگتے تھے کہ میں ایسے مقدمہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کا فیصلہ حضرت علی بھی نہ کر سکیں اسی طرح آپ کے بارے میں حضرت سعید بن مسیبت رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی ایسا صاحب علم نہیں تھا کہ جو یہ کہہ چکے کہ جس کو جو کچھ پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باوجود اپنے علم وفضل کی شہرت کے اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ فرائض کا جاننے والا معاملہ فہم کوئی شخص بھی نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عیاش رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کمال علم، قرابت رسول ۖ فقیہ حدیث، شجاعت جنگ، سخاوت مال وغیرہ کمالات کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان میں ایک خاص فضلیت کے مالک تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔ چنانچہ آپ کا خود بیان ہے کہ دو شنبہ کے دن حضور اکرمۖ پر وحی نازل ہوئی اور میں منگل کے دن مسلمان ہوا جس وقت آپ اسلام لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً دس سال تھی۔ جیسے آپ کا اپنا فرمان ہے میں نے تم سب سے پہلے اسلام قبول کیا جب کہ میں لڑکا تھا اور حدّبلوغ تک نہیں پہنچاتھا۔ باقی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی عمر میں بھی بت پرستی نہیں کی۔
غزوات اور جہادوں میں آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری اور شجاعت کے کارنامے بے شمار وبے مثال ہیں جنگ تبوک کے سوا تمام غزوات میں آپ شامل ہوئے اور کفار کے بڑے بڑے سورموں کو قتل کرکے واصل جہنم کیا۔ جنگ بدر میں یہ بن عقبہ اور شیعہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔ جنگ احد میں ایسی جانبازی کے ساتھ لڑے کہ سوزخم آپ کے جسم اقدس پر لگے پھر بھی ہمت نہیں ہاری۔ اس حال میں بھی ذوالفقار حیدری اپنے پورے جو بن پر چلتی رہی جنگ خندق میں عمرو بن عبدود جو ایک ہزار بہادروں کے برابر مانا جاتا تھا۔ آپ نے اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ اس کی کھوپڑی کو کاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی عمر دین عہدود کے مرنے اور قتل ہونے کے بعد ضرار اور جبرہ آگے بڑھے لیکن جب ذوالفقار حیدری چلی تو یہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے اور میدان میں فرار ہوگئے۔ نوفل بھی کفار کا بڑا شاہسوار اور بہادر مانا جاتا تھا۔ مگر یہ بھی ذوالفقار حیدری کی مار دیکھ کر ہی بھاگ نکلا لیکن بھاگتے ہوئے ایسم اندھا ہو کہ خندق میں ہی گرا پڑا تو آپ آپ خندق میں کود پڑے اور اس مغرور کا خاتمہ کرکے جہنم رسید کردیا بہرحال آپ رضی اللہ عنہ اپنی کامیاب اور قابل فخر وعمل زندگی گزار کر21رمضان میں جام شہادت نوش فرما گئے آپ کی نماز جنازہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ بزار پر انوار نجف اشرف میں بنا جو کوفہ میں ہے اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے فیوض وبرکات سے ہم گنہگاروں کی جھولیاں بھر دے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭