نیکی کی کہانی…نکاح!!!

0
85

شہر کے ایک پرانے محلے “گلشن کالونی” میں پچھلے کچھ مہینوں سے عجیب واقعات ہو رہے تھے۔ کسی غریب گھر کے دروازے پر صبح سویرے راشن کا تھیلا رکھا ملتا، کسی بیمار بزرگ کی کھڑکی پر دوائیوں کا پیکٹ پڑا ہوتا، کبھی کسی یتیم بچے کے سکول بیگ میں نئی کاپیاں اور پنسلیں ملتیں، تو کبھی محلے کے ٹوٹے ہوئے واحد جھولے کی مرمت راتوں رات ہو جاتی۔یہ سب کون کر رہا تھا، کوئی نہیں جانتا تھا،شروع شروع میں تو لوگوں نے اسے اتفاق سمجھا، پھر کسی نے کہا کہ شاید کوئی فرشتہ ہے یا کوئی ولی اللہ۔ محلے کی چوپال پر روز شام کو یہی باتیں ہوتیں۔ ہر کوئی اس “ان دیکھے محسن” کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ کچھ نوجوانوں نے تو پہرہ دینے کی بھی کوشش کی، مگر وہ پراسرار مددگار ہمیشہ ان کی نظروں سے اوجھل رہتا۔اس محلے میں ایک خاموش طبع بزرگ خاتون زینب بی بی بھی رہتی تھیں۔ وہ بیوہ تھیں اور ان کے بچے بیرون ملک مقیم تھے۔ وہ زیادہ تر اپنے گھر میں ہی رہتیں اور بہت کم لوگوں سے ملتی تھیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب “خاموش مہربانیاں” انہی کی تھیں۔زینب بی بی رات کے آخری پہر یا فجر کی اذان سے پہلے، جب سارا محلہ سو رہا ہوتا، چپکے سے نکلتیں۔ وہ اپنے مرحوم شوہر کی پینشن اور بچوں کے بھیجے ہوئے پیسوں میں سے کچھ رقم بچا کر رکھتی تھیں اور محلے والوں کی ضروریات کا خاموشی سے جائزہ لیتی رہتی تھیں۔ انہیں کسی سے تعریف یا شکریہ کی طلب نہیں تھی، بس لوگوں کے چہروں پر آنے والی خوشی اور سکون دیکھ کر ان کا دل بھی خوشی سے بھر جاتا تھا۔رفتہ رفتہ ان “خاموش مہربانیوں” کا اثر پورے محلے پر ہونے لگا۔ جس پراسرار طریقے سے مدد پہنچ رہی تھی، اس نے لوگوں کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے نرمی پیدا کر دی۔ اب لوگ صرف اس بات پر حیران نہیں ہوتے تھے کہ مدد کون کر رہا ہے، بلکہ وہ خود بھی ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے تھے۔اگر کسی کے گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو پڑوسی اس کے لیے کھانا بھجوا دیتے، کوئی بچہ سکول فیس نہ دے پاتا تو محلے والے مل کر انتظام کر دیتے۔ ایک دوسرے پر شک کرنے یا غیبت کرنے کے بجائے، لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے لگے۔ وہ “ان دیکھا محسن” اب اکیلا نہیں تھا، پورا محلہ ہی ایک دوسرے کا محسن بنتا جا رہا تھا۔زینب بی بی یہ سب دیکھ کر مسکراتیں، ان کا مقصد پورا ہو رہا تھا۔ انہیں کبھی کسی نے رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا، نہ ہی انہوں نے کبھی اپنا راز افشا کیا۔ لیکن ان کی شروع کی ہوئی نیکی کی زنجیر نے پورے گلشن کالونی کو ایک مثالی محلے میں بدل دیا تھا جہاں لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور محبت و بھائی چارے سے رہتے تھے۔
کہانی کا سبق:نیکی اور بھلائی کے لیے پہچان یا ناموری ضروری نہیں، ایک چھوٹا سا اچھا قدم، اگر خلوص نیت سے اٹھایا جائے، تو وہ پورے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا بیج بو سکتا ہے۔ خاموش مہربانیاں بھی دلوں کو جوڑ سکتی ہیں اور معاشرے کو بہتر بنا سکتی ہیں اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہو رہے ہیں اور 25 – 30 سال تک نکاح نہیں ہو رہا ہے تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے۔وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے ، اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے۔ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں۔بھوک، پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے ، اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔بدقسمتی کی انتہا ، اسکول ، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح کے علم حاصل کر رہے ہیں ، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے ، اور اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔نکاح انسانوں کا طریقہ ہے ، جانور بغیر نکاح کے بغیر رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں۔یہ کوئی فحش گفتگو نہیں ہے ایک درس اور مشورہ ہے ہے جو ہر والدین کی ضرورت ہے ، بے حیائی کو روکنے کا اور گناہوں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کا ذریعہ ہے۔
(جزاکم اللہ خیر)
تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بن جائے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here