جی ایسا ہی ہے۔ برسوں سے، اخلاقی اور ایمانداری طور پر امریکہ پستی کی طرف گامزن ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر گامزن اس کا مطلب صدیوں سے کچھ نہیں بدلا۔ لیکن یہ کہتے چلیں کہ ساٹھ کی دہائی سے اسّی کی دہائی تک امریکہ امریکہ ہی تھا آئزن ہاور، کینڈی اور پھر ریگن پر امریکہ بدلنا شروع ہوا جس کی تفصیل ہے وہ ہی جان سکتے ہیں جو یہاں،60اور ستر کی دہائی میں آئے تھے سب پڑھے لکھے تھے جو یہاں کے قانون کی پیروی کرتے تھے کوئی تعصب نہیں تھا کالے ہوں یا گورے بہت عزت دی جاتی تھی۔ گرین کارڈ ہاتھ میں تھما کر امیگریشن آفیسر کہتا تھا۔ویلکم ٹو یو ایس اے۔
امریکہ میں خوش آمدید اور اس وقت نوے فیصد امریکہ گوروں کے ہاتھ میں تھا۔ باہر کے ملکوں سے آنے والوں کی بوچھاڑ نہ تھی۔ کسٹم پر کوئی غیر ضروری سوال نہیں پوچھا جاتا تھا مسکرا کر خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ یہ پہلی جنریشن تھی۔ پھر کوٹہ سسٹم کے تحت بھائی بہن آتے رہے یہ سب یہاں اپنی قابلیت سے نہیں بلکہ شہری لوگوں کی داخل پٹیشن پر آتے رہے ہر ملک سے آتے رہے امریکہ قانون کے مطابق آبادی کے لحاظ سے گرین کارڈ بانٹتا رہا ان میں زیادہ تر لوگ غیر تعلیم یافتہ ورکرز تھے جن کی ضرورت تھی لیکن جو لوگ یہاں آکر بسے وہ ملازمت سے دور تھے۔ ملازمت نہ ملنے پر فوڈ اسٹمپ کے حقدار تھے ان میں ہسپانوی لوگوں کی تعداد زیادہ تھی جو تعلیم سے دور تھے بلکہ انگریزی بھی سیکھنا برا سمجھتے تھے۔ انہیں مراعات آسانی سے مل جاتی تھیں کہ ان محکموں میں بھی اُن کی رسائی تھی۔ ہر جگہ زور زور سے اپنی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ نیویارک میں جو بیکار لوگوں کے لئے جنت تھی ان سب کا پڑائو تھا اور کالے بے چارے بدنام تھے جنہیں نہیں معلوم تھا کہ ویلفیئر یا دوسری سہولتیں کیسے ملتی ہیں۔ لاٹری ویزا کھلا اور بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ آبادی اور نیا ملک ہونے کے ناطے پھر ایک ایک فیملی کے چھ چھ بچے تھے ان میں دو بچے اپنے بھائی اور بہن کے لاتے تھے۔ ایک اور کام یہ کیا کچھ بنگلہ دیشی بھائیوں نے کہ انکی عورتیں اپنے شوہروں کو طلاق دے کر کئی شوہروں کو باری باری لے آتی تھیں جن کے اپنے بچے پہلی شادی سے ہوتے تھے اور یہ تعداد اور علاقے بڑھتے گئے۔ جیکسن ہائٹس، ہل سائڈ، بروکلین جمیکا میں بنگلہ دیشی بھرتے گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارا پنجاب مقابلے پر آیا اور یہ مقابلہ جاری ہے۔ دونوں مختلف بزنس میں ہیں، زیادہ تر اوبر چلاتے ہیں۔ ریستوران کے بزنس میں یا سب سے آسان کنسٹرکشن کے کنٹریکٹر بن گئے جنہیں دیوار میں لگا الیکٹرک ساکٹ بھی لگانا نہیں آتا۔ انہیںFLATHEAD, HEX یاPHILIPS اسکرو ڈرائیور کی پہچان نہیں یہ سب کے سب جعلساز نکلے ناسا کائونٹی اور نیویارک میں آسان قانون کے تحت کوئی بھی فارم بھر کر کنٹریکٹر بن سکتا ہے۔ اور کنٹریکٹ کے تحت آدھی رقم کام شروع کرنے سے پہلے لیتے ہیں۔اور زیادہ تر کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں پیسے ہڑپ کر جاتے ہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ پوری رقم ڈکار کر غائب ہوجاتے ہیں۔ ریستوران کے بزنس میں فائدہ ہی فائدہ دوگنے سے زیادہ لیکن خیال رہے کسی ریستوران میں آپ کو صحیح نان نہیں ملے گا۔ ان کا گزارا میکسیکن پر ہے۔ بے ایمانی میں سب سے آگے کہ دوکا بل آئے گا تو18فیصد سروس چارج لگ کر جب کہ ٹشو پیپر کے لئے آپ کو مانگ کرنا ہوگی۔ ایک لمبی کہانی ہے سارے ریستورانوں کا ایک ہی حال ہے قیمتیں دیکھ کر حیران ہوگی۔ ان میں افغانی بھائی بھی شامل ہیں۔ یہ سب باتیں اور ان کے کئے گئے فراڈ جن میں ٹیکس نہ دینا اور دینا تو اتنا کہ وہ میڈیگیڈ کے حقدار بن سکیں جس میں سب کچھ ہے اور اس میں مدد کرنے والے ڈے کیرسینٹر ہیں بڑی تعداد میں جو لوٹ مار میں پیچھے نہیں ابھی نیوجرسی میں دو افراد کو ڈیڑھ سو ملین سے زیادہ کے فراڈ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح1982میں فارمیسی کے فراڈ میں پیسہ ہی پیسہ بنانے والے اب پھر سے نئی جنریشن کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ ڈاکٹروں سےRXلکھوا کر بے ضرورت دوائیں دے رہے ہیں اُن میں وہ ڈاکٹرز بھی شامل ہیں جو اپنے ملکوں سےMBBSکرکے آئے ہیں اور فراڈ کر رہے ہیں کوئی دس فیصد ایسے ہیں جو ایمانداری سے اپنے پیشے میں جمے ہوئے ہیں ورنہ ضرورتLIPITOR کی بجائے اسسٹنٹ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ50 سالوں میں امریکہ کی ہیبت بدل گئی ہے ہر طرح کے فراڈ ہو رہے ہیں جو کریڈٹ کارڈ سے شروع ہوئے تھے۔ کئی ریاستوں نے جن میں نیویارک ہمیشہ ٹاپ پر رہا ہے ہر طرف سہولت اور جان کاری کی ہے۔ میر سے لے کر گورنر تک حسب ناکارہ اور جھوٹے ہیں ٹیکس بڑھانے کے ماہر۔ ان کا مشن الیکشن جیتا ہے عوامی فائدے کا کوئی کام نہیں کرتے۔
اب آتے ہیں اس کے مجموعی اثرات کی طرف کہ یہ ساری باتیں جرائم غیر قانونیت حکومت کی نظر میں ہیں انہیں الیکشن میں کامیابی بھی چاہئے اور گوروں کو خوش کرنا بھی شامل ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ دوبارہ صدر بن گئے اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ یہاں ہم کہتے چلیں کہ یہ غیر قانونی کیوں بنے رہے جب کہ لاکھوں وکلاء ہیں ان کاموں کے لئے آپ کسی بھی ملک میں ایک دن بھی اجازت کے بغیر رک جائیں تو اندر کر دیا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ امریکہ کی دی گئی آزادی یا سہولتیں آپ نے اپنا حق سمجھ کر استعمال کیں اور اب صدر ٹرمپ نے اس قانون پر عملدرآمد کرایا تو چیخیں کیوں کہا یہ جارہا ہے ٹرمپ ان کے عید دوسرے قانونی طور پر آئے اور بسنے امیگرنٹ کو بھی نکال باہر کریگا۔ جو ممکن نہیں دوسری جانب ڈیموکریٹ ہیں جنہوں نے بنیادی قانون کا بیڑا غرق کردیا ہے چھوٹے پیمانے پر ریپبلکن بھی مقابلے میں ہیں جو کوئی اچھا کام نہیں کرنا چاہتے۔ ڈیموکریٹ کی طرح اب جو کیلی فورنیا میں پچھلے تین دنوں میں4635غیر قانونی افراد کو پکڑا ہے تو کیلی فورنیا کے گورنر، گیون نیوسم، میئر کیرن باس ور مساچیوسٹ بوسٹن کی میرمشل وو کے علاوہ تمام ڈیموکریٹک لوگ نیویارک کے جیفری حکیم سب نے صدر ٹرمپ کے نیشنل گارڈ اتارنے پر شدید احتجاج کیا ہے کچھ نے اسے نازی تحریک کا نام دیا ہے۔ جہاں جہاں ڈیموکریٹ میئر ہیں ان شہروں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ ری پبلکن ایسا ہونے نہیں دینا چاہتے پر بھی ہم یہ کہینگے صدر ٹرمپ سے پہلے کچھ کام عوام(قانونی) کے فائدے اور ڈیمانڈ کی خاطر کریں۔ پھر وہ قانون کے تحت ایسا کریں ان کے خلاف جو لاقانونیت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔اور کبھی ہم کبھی تم کا ورق الٹ کر وہ کریں جو عوام کی بھلائی کا ہے!!۔
٭٭٭٭٭












