پاکستان میں ہر سیاستدان خود کو بے بس منوانے کی کوشش کرتا ہے مگر حکومت کرنے کے بعد ہی یہ خیال انہیں آتا ہے۔۔۔پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ سیاستدانوں کی بے بسی کی اصل وجہ پاکستان کے سیاسی نظام میں موجود طاقت کے توازن کا فقدان ہے۔ بظاہر تو سیاستدان عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ بے بسی کی ایسی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں جنہیں توڑنا ان کے لیے ناممکن نظر آتا ہے۔پاکستان میں جب بھی کوئی نیا سیاسی رہنما سامنے آتا ہے، عوام میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھتی ہے کہ شاید اب حالات بدلیں گے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی سیاستدان بھی اسی نظام کا حصہ بن جاتا ہے جس کے خلاف وہ نعرے لگا رہا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا عمل دخل ہے۔ ان قوتوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی پالیسی عملی طور پر نافذ نہیں ہوسکتی۔پاکستانی سیاستدانوں کو جب بھی حکومت ملتی ہے تو انہیں معاشی مسائل، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن ان کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ نتیجتا وہ بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔سیاسی بے بسی کی دوسری بڑی وجہ پارٹی سسٹم میں جمہوری روایات کی کمزوری ہے۔ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں خاندانی سیاست کا شکار ہیں، جہاں قیادت ایک مخصوص خاندان یا شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ اس سے نچلی سطح کے سیاستدانوں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور وہ پارٹی سربراہ کے احکامات کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ یوں یہ سیاستدان عوام کی آواز بننے کے بجائے محض ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ جاتے ہیں۔پاکستان میں قانون سازی کے عمل میں بھی سیاستدان اکثر بے بس نظر آتے ہیں۔ جب بھی وہ کوئی عوامی مفاد کا قانون لانا چاہتے ہیں، تو یا تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر اپنی ہی پارٹی کے مفادات کی راہ میں آڑے آجاتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیاستدانوں نے ملکی مفاد کے خلاف فیصلے صرف اس لیے کیے کہ اسٹیبلشمنٹ یا طاقتور طبقے ان سے خوش رہیں۔اسی طرح، عالمی طاقتوں کا دبا بھی پاکستانی سیاستدانوں کی بے بسی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اکثر اپنی شرائط پر قرض دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سیاستدان عوامی مفادات کو قربان کرکے ان شرائط کو ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اور عوام میں ان کی مقبولیت کم ہوجاتی ہے۔میڈیا کا کردار بھی اس بے بسی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید، بعض اوقات سیاستدانوں کو بلاوجہ نشانہ بنا کر ان کے کام کو متنازع بنا دیتی ہے، جس سے وہ دبا کا شکار ہوجاتے ہیں۔آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستانی سیاستدان بظاہر طاقتور نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ کئی طاقتور حلقوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ جب تک سیاسی نظام میں حقیقی جمہوریت، قانون کی بالادستی، اور عوامی نمائندوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات نہیں کیے جاتے، تب تک سیاستدانوں کی بے بسی ختم نہیں ہوسکتی۔
٭٭٭












