دینا کے تین بڑے الہامی مذاہب کے درمیان اگر کوئی سب سے مضبوط قدرِ مشترک پائی جاتی ہے تو وہ عظیم پیغمبرِ خدا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذاتِ بابرکات ہے۔ یہودیت، نصرانیت اور اسلام کے پیروکار صدیاں گزرنے کے بعد بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا جدِ امجد مانتے ہوئے، ان کی عظمت اور بزرگی پر متفق و متحد ہیں۔ اہلِ کتاب کے اس عقیدے نے تینوں مذاہب کو کسی حد تک ایک دوسرے کے قریب رکھا ہوا ہے۔ قرآن نے بھی اہلِ کتاب کے ساتھ شادیاں اور ان کے ہاتھ کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا ہوا ہے، حالانکہ وہ دونوں مذاہب، نبی اکرم ۖ کی نبوت کے انکاری ہیں۔ دنیا میں مخالفتوں اور نفرتوں کو کم کرنے کیلئے مختلف مذاہب کے علما کی آپس کی گفت و شنید ضروری ہے۔ محمد وصی نے اچھا کہا ہے کہ!
آ دو چار گھڑی بیٹھ کے اک گوشے میں
کسی موضوع پہ اظہار خیالات کریں
اسلام نے تو اپنا سب سے بڑا تہوار، عید الاضحی ہی حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے نام کر دیا ہے۔ کعب اللہ سے تھوڑے سے فاصلے پر، ہر سال لاکھوں حجاج کرام عین اسی مقام پر جمع ہوتے ہیں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام، اپنے انتہائی پیارے فرزندِ ارجمند، حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کو لائے تھے تاکہ فرمانِ الہی کے عین مطابق ذبح عظیم بجا لا سکیں۔ ان کے راستے میں جہاں جہاں شیطانِ مردود نے انہیں بہکانے کی کوشش کی، حجاجِ کرام کیلئے ضروری ہے کہ وہاں وہ دورانِ حج، کنکریاں پھینک کر اعلان کریں کہ ہم شیطان کے نہیں ابراہیم علیہ السلام کے واحد رب کے بندے ہیں، جس کی وحدانیت اور ربوبیت پر ایمان لانا، دنیا کے تمام اہلِ ایمان کیلئے لازم ہے۔
سور آلِ عمران میں ارشاد ہے کہ!ما ان ِبراہِیم یہودِیا ولا نصرانِیا ولِن ان حنِیفا مسلِما وما ان مِن المشرِِین (67) ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھا، نہ عیسائی بلکہ وہ ایک مسلم یکسو تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا۔آج کل کروڑوں مسلمان، سنتِ ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کیلئے پوری دنیا میں عید الاضحی مناتے ہیں۔ پاک و ہند میں ہم اس بڑی عید کو گوشت والی عید بھی کہتے ہیں۔ لاکھوں جانوروں کا تین دن کے مختصر عرصے میں ذبح ہوجانے سے قربانی کی ایسی فضا بنتی ہے کہ بچے اور بڑے سب اسے پورا سال یاد رکھتے ہیں۔ خورشید اکبر نے قوم کی بڑے اچھے طریقے سے ترجمانی کی ہے۔
کتنے آداب سے مقتل کو سجایا گیا ہے
پھر تری بزم سے زندوں کو اٹھایا گیا ہے
سچ کسی جھوٹ کی تخلیق نہیں کر سکتا
جانے کیا ہے جو سلیقے سے چھپایا گیا ہے
عید قرباں سے مقدس نہیں کوئی تقریب
اس طرح بھولا سبق یاد دلایا گیا ہے
امتِ مسلمہ کے جو لوگ حج پر نہیں جا سکتے، ان کیلئے اس مقدس تقریب کے اہتمام کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ وہ اپنے اپنے مقامات پر قربانی کا جانور خرید کر ذبح عظیم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ امت کے کچھ لوگ صرف قربانی کے گوشت کو ہی اس عید کا اصل مقصد سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے کہ!
“اے محمدۖ، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں” (الانعام:162)اسی طرح سور الحج میں بھی قربانی کا اصل مقصد گوشت کی بجائے تقوی کا حصول بتایا گیا ہے۔
ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا
خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوی پہنچتا ہے۔
٭٭٭













