انسانیت کی معلوم تاریخ جو کہ کئی ہزار سال پر محیط ہے، کے دوران عوام الناس کی ہجرتوں اور دنیا میں نقل و حرکت پر ویزوں والی پابندی صرف تقریبا دو سو سال پہلے ہی لگنا شروع ہو ئی ہے۔ اس مصنوعی پابندی والے ظالمانہ نظام سے پہلے، لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی حاصل تھی۔ دنیا کے ایک خطے میں جب قدرتی وسائل میں کمی ہوتی تھی تو وہ دوسرے مقامات کا رخ کرتے تھے۔ معیشت کی بنیاد پر بڑی بڑی ہجرتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ویزہ کنٹرول کا آغاز ہوتے ہی، انسانوں نے اپنے اپنے علاقوں کے دروازے بعد میں آنے والوں کیلئے بند کرنا شروع کردئیے اور یوں انسان کا وہ بنیادی حق جو اسے نقل و حرکت کی مکمل آزادی دیتا تھا، مفلوج و معطل ہو گیا۔ عبید الرحمن کے اس شعر نے ہمیں کیا خوب سمجھایا ہے۔
ہمیں ہجرت سمجھ میں اتنی آئی
پرندہ آب و دانہ چاہتا ہے
آج کل، دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح، ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی معاشی بنیادوں پر ہونے والی ہجرتوں کو نہیں سنبھال پا رہا۔ بارڈر کنٹرول پر بے انتہا دولت خرچ کرنے کے باوجود، روزانہ ہزاروں افراد بغیر ویزہ حاصل کئیے، امریکہ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ غریب الوطن لوگ اپنے آبائی ممالک میں معاشی تنگیوں کو برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے، ایجنٹوں کو بھاری رشوتیں دے کر، اس نئے ملک میں پہنچتے ہیں۔ سستی افرادی قوت حاصل کرنے کیلئے، یہاں کے عام شہری تو زیادہ تر ان نئے امریکیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن جب حکومت نسل پرستوں کے ہاتھ آجاتی ہے تو وہ اپنی خالص سفید نسل کو محفوظ بنانے کیلئے، ان زیادہ تر غریب شہریوں کو امریکہ سے نکال باہر کرنے کا قبیح کام شروع کردیتی ہے۔ منیر نیازی کے یہ اشعار بھی ہمیں یہی بتاتے ہیں۔
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
اس دنیا میں، ہر انسان کیلئے رزق تو اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات نے فراہم کردیا ہے لیکن اس رزق کی منصفانہ تقسیم کا کام چونکہ حضرتِ انساں کے ذمہ ہے اور ہماری بدقسمتی کہ تقسیمِ رزق کا جو نظام اس دور کے انسانوں نے ترتیب دیا ہے وہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے ویزوں کا غیر منصفانہ نظام بنایا گیا ہے وہ ہجرتوں کے گھمبیر مسائل پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ آئے دن، غریب الوطن معاشی مہاجر، کشتیوں میں ڈوب کر اور بڑے بحری جہازوں کے تہہ خانوں میں دم گھٹنے سے مر تے رہتے ہیں۔ اپنے پیاروں سے دور طویل عرصہ گزارنے کے باوجود بھی انکی زندگی عذاب بنی رہتی ہے۔ مشرقِ وسطی کے ممالک تو انہیں بنیادی انسانی حقوق، بشمول شہریت کے، انہیں دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے۔ جنابِ افتخار عارف نے تو اپنے اس شعر میں سب حال، کچھ اس طرح بیان کردیا ہے۔
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
ہمیں تو افسوس امریکہ کی موجودہ حکومت کی حالیہ پالیسیاں دیکھ کر ہورہاہے۔ وہ ملک جو دریافت ہی امیگرنٹس نے کیا اور اسے ترقی کے اعلی و اررفع مقام پر بھی امیگرنٹس نے پہنچایا، وہی ملک آجکل نئے امریکیوں کیلئے جہنم بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ان نئے امریکیوں کے بغیر یہاں کی معیشت کا پہیہ رک جائے گا لیکن نسلی تفاخر نے حکمرانوں کو ایسا پاگل بنا دیا ہے کہ انہیں اپنے نفع و نقصان کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ حالیہ امیگریشن پالیسیوں کے متاثرین کی حالت بھانپتے ہوئے، شہاب احمد نے کہا تھاکہ
مجبور لوگ نقل مکانی میں چل پڑے
جب بن پڑا نہ راستہ پانی میں چل پڑے
٭٭٭










