امریکہ اور ایران کے مابین 15 جون کو اومان میں مذاکرات ہونے والے تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ ان مذاکرات میں امریکہ اور ایران کے مابین کوئی معاہدہ طے پا گیا تو خطے میں دیرپا امن کی کوئی صورتحال نکل سکتی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ایسی صورت میں فلسطین اور غزہ کے لیے بھی کوئی بہتر امید کی کرن نظر آ سکتی ہے۔ مجوزہ مذاکرات سے صرف دو دن قبل اسرائیل نے ایران پر بلا اشتعال حملے شروع کر دیے۔ ظاہر ہے کہ ایران نے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جوابی حملوں کا اپنا حق استعمال کیا ہے۔ باقاعدہ اعلان جنگ تو نہیں ہوا لیکن عملی طور پر ایران اور اسرائیل اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے اس سے قطع نظر ذہنوں میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اسرائیل نے اس وقت کا ہی کیوں انتخاب کیا۔ کیا وہ مجوزہ مذاکرات کے کامیاب یا ناکام ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا؟ آخری خبریں آنے تک ایران نے ان مذاکرات میں شرکت سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک جانب ایران پر بلا اشتعال حملے ، بلکہ ایران کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جا چکا ہے، تو پھر کونسے مذاکرات اور کس بارے میں مذاکرات؟ اسرائیل کی جانب سے یہ حملے تو یہی بتا رہے ہیں کہ اسرائیل ایران کے ساتھ ساتھ ان مذاکرات کے خلاف بھی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اور اسکا اصل مقصد نہ تو اسرائیل کا دفاع ہے اور نہ ہی اسے امن کی خواہش ہے۔ بلکہ اسکا اصل مقصد ایک ایک کر کے خطے کے تمام مسلمان ممالک یا کم ا ز کم انکی عسکری صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ مسقط میں ایران امریکہ ڈائیلاگ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ کی ہے جس میں امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے ایران پہ زور دیا تھا کہ وہ جوہری معاہدہ کرلے مگر ڈائیلاگ کے دوران کئی دفاعی شخصیات مزاحمت کررہے تھیں وہ آج زندہ نہیں ہیں۔ مذاکرات سیدو دن قبل صہیونی ریاست کا ایران کی جوہری تنصیبات پہ حملہ کرنا، ایران کی فوجی قیادت کو نشانہ بنانا اور نہتے ایرانیوں کو خون میں نہلانا اور پھر ٹرمپ کا یہ ٹویٹ کہ میں نے ایران کو ساٹھ دن دئیے تھے اور انہوں نے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور آج اکسٹھواں روز ہے۔ ٹھیک اسی دن ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس حملے سے واقف تھے اس کا مطلب ہے کہ اس سارے معاملے میں امریکی صدر ایران کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے تھے! ساتھ ہی ٹرمپ کا یہ کہنا کہ امریکہ کے پاس دنیا کے مہلک ترین ہتھیار ہیں اور ان میں سے کئی ہتھیار اسرائیل کے پاس بھی ہیں اور وہ انہیں چلانا بھی جانتے ہیں، اس لئے ایران امریکہ سے جوہری معاہدہ کرلے وگرنہ اگلہ حملہ انتہائی خطرناک ہوگا جس کے سنگین نتائج ہونگے۔ ٹرمپ کی دھمکیوں سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ایران اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور امریکی پناہ میں آجائے۔ اس ساری صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ خود بیوقوف ہیں یا وہ دنیا کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں؟ سارے مسلمان ملک اور دیگر دنیا جانتی ہے کہ غزہ کے نہتے مسلمانوں پہ ظلم و ستم امریکی ایما پہ ہورہا ہے، ظلم و بربریت کی داستان امریکی معاونت، مشاورت اور امداد سے ہورہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں یہ بات نہیں مانی جا سکتی کہ امریکہ کو ان حملوںکا پہلے سے علم نہیں تھا اور یہ کہ اسرائیل نے یہ سب امریکہ کی آشیرباد کے بغیر کیا ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ ان حملوںکو ایران کو دبانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہو کہ اس طرح ایران کو اپنی اور اسرائیل کی مرضی کا کوئی یکطرفہ معاہدہ یا سمجھوتا کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو امریکہ نے ایک بہت بڑا جوا کھیلا ہے جس کے اثرات خطے کے علاوہ عالمی سیاست پر بھی ہونگے۔ یاد رہے کہ جس طرح بھارت مذہب کی بنیاد پر دو قومی نظریے کی مخالفت کرتا ہے لیکن در حقیقت اسکی حکومت اور حکمران جماعت کی تمام سیاست اور اقدامات مذہب کی بنیاد پر ہندوتوا کی ترویج کے لیے ہوتے ہیں اسی طرح مغرب اور امریکہ ویسے تو مذہب کی بنیاد قومیت کی بات یا کسی نظریے کو انتہا پسندی کہتے ہیں لیکن خود انکے تمام اقدامات مذہب کی بنیاد پر ہی ہیں۔ اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان ( یا زیادہ سے زیادہ مسلمان ممالک ) بھی مذہب کے نام پر اکٹھے ہوں، اور انسانیت اور اسلام کے ان دشمنوں کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اپنے تمام وسائل یکجا کر کے انکو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔ جب انکا اصل چہرہ سامنے آئے گا تو تو اصل یہودی اور مسیحی بھی انکے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ اس کام کے لیے عالم اسلام کے پاس عددی قوت اور مالی وسائل تو موجود ہیں لیکن سمجھ، جوش، ولولہ اور یہ سب کرنے کی لگن کہیں نظر نہیں آتی۔ورنہ یہ ناممکن ہرگز نہیں۔ اب امریکہ بھی جان چکا ہے اور دنیا پہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ ایران تمام عالمی پابندیوں کے باوجود صہیونی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جاری جنگ میں مسلم دنیا نے بھی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے ایران سے کہا ہے کہ مسلم دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہے، ترکیہ نے امریکہ پہ واضح کیا ہے کہ اگر امریکہ میدان میں آیا تو نتائج سنگین ہونگے، پاکستان نے دو ٹوک موقف اپنایا ہے کہ وہ مشکل وقت میں ایرانی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور جہاں جیسے ہوا ہم تعاون کریں گے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں صہیونی ریاست ہی وہ واحد ناجائز ریاست تھی جو سرعام بھارت کی پشت پناہی کررہی تھی۔ اب اگر امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر مغربی طاقتیں صہیونی ریاست کی امداد کے لئے میدان میں کودتی ہیں تو مسلمان ممالک کو پوری بہادری اور طاقت کے ساتھ ایران کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ اگر امریکہ و یورپ کے اس ناجائز صہیونی بچے کو سبق نہ سکھایا گیا تو وزیر دفاع پاکستان خواجہ آصف کا یہ کہنا درست ثابت ہوگا کہ سب کی باری آئے گی۔
٭٭٭












