ساگا صاحب !!!

0
64

پروفیسر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا صاحب مرحوم صدارتی تمغہ حسن کارکردگی میرے اناٹومی کے پروفیسر تھے ان کی وجہ شہرت اناٹومی کا پروفیسر ہونا ہرگز نہیں تھی، وہ ایک ڈانسر تھے ،مور ڈانس کے علاوہ ہر طرح کا ڈانس کرتے تھے، پروفیسری سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ الحمرا آرٹس کونسل میں پرائیویٹ ڈانس کی کلاسز بھی دیتے رہے ،میری ان سے بڑی اچھی دوستی تھی، میرے ایک قریبی دوست ان کے رشتہ دار تھے بس اسی وجہ سے ان سے پہلی علیک سلیک ہوئی جو استاد شاگرد کے رشتے کے بعد دوستی اور پھر ایک پدرانہ شفقت میں بدل گئی ویسے تو ان کی ہر کسی سے دوستی تھی سوائے ایک ساتھی گو لیگ پروفیسر ڈاکٹر اصغر نواز کہ وہ جونیئر ہوتے ہوئے انہیں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے سے اتروا کر خود اس پر متمکن ہو گئے تھے ساگا صاحب اکثر راہ چلتے رک کر اپنے سٹوڈنٹس سے باتیں کرنا شروع کر دیتے دیکھتے ہی دیکھتے قہقہوں بھرا اکٹھ بلکہ مجمع سا لگ جاتا ،وہ ہر طرح کے لطیفے سنانے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے، ایک دن کہنے لگے ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے لطیفوں کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وی سی سے زیادہ پاپولر ہونے کی وجہ سے ہر وی سی ان سے خار کھاتا تھا ۔ اکثر گاہے گاہے مجھے یاد کرتے رہتے ،مطلب اکیلے کسی تقریب میں اپنے ویسپا میں جانے کی بجائے وہ مجھے میری گاڑی میں کبھی الحمرا ،کبھی پی ٹی وی یا کسی سیمینار میں لے جاتے ۔ میرے مزاج کے شناسا تھے، لہٰذا فلم کے پریمئیر میں لے جانا کبھی نہ بھولتے ان کے بارے میں عجیب سی باتیں مشہور تھیں مثلا یہ کہ شاید وہ حضرت مخنث اور لڑکوں کو پسند کرتے ہیں مگر ان کی اولاد میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے ،ایک بیٹی ایف جے سے گولڈ میڈلسٹ تھیں اور نیویارک میں ریذیڈینسی کر رہی تھیں اس سے چھوٹے بیٹے جی ڈی پائلٹ تھے جن کا جہاز انکی پاسنگ آئوٹ سے چند دن پہلے کریش کر گیا تھا جس میں ان کی شہادت ہو گئی تھی، اس سے چھوٹی ایک بیٹی ایم بی اے کر رہی تھی ،باقی ایک بیٹی پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی اور سب سے چھوٹا چار سال کا بیٹا جو ابھی سکول نہیں جاتا تھا ،ساگا صاحب شام نگر چوبرجی میں رہتے تھے ،متوسط درجے کی اس فیملی کا میں بھی ایک فرد بن گیا تھا جب میں گنگا رام ہسپتال میں کام کرتا تھا تو میری سرجری کی پروفیسرڈاکٹر خالدہ عثمانی جو کہ کینسر ریسرچ فانڈیشن لاہور کی بھی روح رواں تھیں نے کینسر پر تین روزہ کانفرنس منعقد کروائی جس میں میری ذمہ داری فارن ڈیلیگیڈز کو ایئرپورٹ سے ریسیو کر کے ہوٹل پہنچانا ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ، انہیں لاہور کی سیر کروانا اور ان کی انٹرٹینمنٹ کے لیے آواری ہوٹل میں ایک شو کا اہتمام کرنا شامل تھا جس میں ملک کے نامور اداکار و گلوکار شرکت کر رہے تھے ۔میرے اصرار پر ڈاکٹر یونس بٹ اور ساگا صاحب اپنی منچلی بیٹی کے ساتھ شریک ہوئے جس میں باپ بیٹی دونوں نے پرفارم بھی کیا ،مجھے خوشی سے دیکھ کر کہنے لگے عامر میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں جیتے جی مجھ سے ڈانس سیکھ لو ،مجھ سے نہیں تو میری بیٹی سے ہی سیکھ لو اور اگر پٹتی ہے تو اسے پٹا بھی لو، میرے دل میں ان کی عزت اور بھی بڑھ گئی کہ وہ دوسرے لفظوں میں مجھے اپنی فیملی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔میں نے مسکرا کر کہا یاد رکھئیے گا کہ میں آپ کا روحانی بیٹا ہوں، وہ سات زبانیں بولتے تھے اسی کانفرنس میں انہوں نے فارن ڈیلگیڈز کو سات زبانوں میں خوش آمدید کہا اور یہ بھی کہ وہ اپنے شہید بیٹے کا غم ڈانس کر کے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں جب میں پہلی دفعہ ان کے گھر گیا تو ان کا مجھ سے اس طرح کی شفقت سے پیش آنا اور پیار کرنے کا عقدہ ڈرائنگ روم میں لگے ایک بڑے چوبی فریم میں ان کے شہید بیٹے کی وردی میں ملبوس تصویر سے کھلا کہ جیسے میں پائلٹ کی وردی پہنے اس تصویر میں سما گیا تھا ۔اس وقت میری آنکھوں میں نمی تھی میں جو کبھی کبھی ان کے عقیدت بھرے رویے سے جھجک جاتا تھا۔ مجھے اپنے اس رویے پر شرمندگی ہوئی وہ تو مجھ میں اپنے بیٹے کو تلاش کرتے رہے اور میں پتا نہیں لوگوں کی پھیلائی ہوئی باتوں کی وجہ سے ان کے بارے میں کیاکیا سوچتا رہا ۔وہ اپنے سب سٹوڈنٹس کو پیار کرتے تھے ،ان کی تربیت کرتے تھے ،کھل کھلا کر ہنستے اور ہنساتے تھے ،اس کا ثبوت مجھے ایک دن ان کے گھر گزار کر ہوا ، میں ان کے ساتھ ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھا کٹے ہوئے ٹھنڈے آم کھا رہا تھا کہ ان کی سب سے چھوٹی بچی اپنے چھوٹے بھائی کی ایک شکایت لے کر ان کے پاس آئی کہ اس کے چھوٹے بھائی نے اسے گالی بکی ہے۔ ساگا صاحب نے بچے کو پیار سے اپنے پاس گود میں بٹھایا اور پوچھا کہ کونسی گالی بکی ہے ۔ بیٹا شرم کی وجہ سے بتا نہیں رہا تھا ،کہنے لگے مجھے بتا پھر وہ اس سے لاڈ کرنے لگے ،بتا بیٹے کہ کونسی گالی اچھا اب مجھے وہی گالی بکو بچہ شرماتا رہا ۔ساگا صاحب نے اسے چھوڑا نہیں، لاڈ میں اصرار بڑھتا رہا، بچے نے تنگ آ کر تتلی زبان میں انہیں بہن کے گالی دے دی، ساگا صاحب مسکرائے بوسہ دیا اور کہا بیٹے یہ تو بہت بڑی گالی ہے، ابھی تم چھوٹے ہو تم بس چھوٹی موٹی گالیاں ہی بکا کرو جیسا کہ بدتمیز وغیرہ ، جب تم بڑے ہو جائو گے تب ایسی گالیاں بکنے بارے سوچنا ۔اس وقت تمہیں اس گالی کی صحیح سمجھ نہیں ہے، یقینا کسی سے سن کر ہی بکی ہو گی لیکن جب تم بڑے ہو جائو گے تمہیں اس گالی کی سمجھ آ جائے گی تو پھر تم شاید ایسی گالی سے احتیاط بھی برتو گے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here