گزشتہ برسوں میں جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں اور ایک حد تک شدت پسندوں کو پسپا کر دیا تو یہ گروہ دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان کے اندر موجود ہیں جہاں سے وہ نہ صرف پاکستانی علاقوں پر حملے کرتے ہیں بلکہ مالی، فکری اور عسکری معاونت بھی انہیں بیرونی عناصر سے حاصل ہوتی ہے۔ بھارت کا کردار اس میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پاکستان نے بارہا یہ شواہد دنیا کے سامنے رکھے ہیں کہ کس طرح بھارتی خفیہ ادارے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں بھارتی حمایت یافتہ پینتالیس دہشت گردوں کا اپنے انجام کو پہنچنا اور اس دوران سکیورٹی اداروں کے انیس جوانوں کا شہید ہونا اس تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی کی قیمت ہمیشہ قربانیوں کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ قربانیاں محض ایک فوجی یا پولیس اہلکار کے لہو کی نہیں بلکہ پورے ملک کے امن اور مستقبل کی ضمانت ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ان آپریشنوں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔پاکستان اور افغانستان کی عبوری حکومت اس امر پر متفق ہیں کہ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور اس کا خاتمہ خطے کی سلامتی اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اس اتفاق رائے کے باوجود اصل رکاوٹ وہ بیرونی قوتیں ہیں جو خطے کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتی ہیں۔ بھارت کی مسلسل مداخلت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایک طرف وہ عالمی سطح پر خود کو امن پسند ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گرد نیٹ ورکس کو سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں دی ہیں اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ ستر ہزار سے زائد قیمتی جانیں گنوانا، کھربوں روپے کی معاشی تباہی برداشت کرنا اور معاشرتی سطح پر خوف و ہراس کا سامنا کرنا اس ملک کی روزمرہ حقیقت رہی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مسلسل برسرِپیکار ہے۔ انیس جوانوں کی شہادت کوئی معمولی قیمت نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس یقین کے ساتھ قربان کیں کہ ان کے لہو کی سرخی آنے والی نسلوں کے ماتھے کا سکون بنے گی۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کا سکیورٹی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرنا بجا ہے۔تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج یا پولیس کی ذمہ داری نہیں بلکہ پوری قوم کی شرکت کے بغیر یہ معرکہ جیتنا ممکن نہیں۔ عوام کا اعتماد اور تعاون ہی وہ سب سے بڑا اثاثہ ہے جس کی بدولت دہشت گردوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ امن کے بغیر کوئی خطہ ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان، افغانستان اور پورا جنوبی ایشیا وسائل سے مالامال ہیں۔ معدنیات، افرادی قوت اور جغرافیائی محلِ وقوع سب کچھ ترقی اور خوشحالی کے ضامن بن سکتے ہیں لیکن جب بارود کی بو اور خون کی سرخی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں تو تعلیم، روزگار، تجارت اور معیشت سب بوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل اس بات پر زور دیتا ہے کہ خطے کی ترقی امن سے مشروط ہے اور امن تبھی ممکن ہے جب دہشت گردی کی جڑیں کاٹ دی جائیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر تو دہشت گردوں کی کمر توڑ دی لیکن وہ اب بھی افغان سرزمین کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر کے حملے کرتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خطے میں عدم استحکام برقرار رہے گا اور سب سے زیادہ نقصان انہی ممالک کو ہوگا جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس لیے افغانستان کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور بیرونی عناصر کو اپنے کھیل کھیلنے کا موقع نہ دے۔آج کی دنیا میں کسی ایک ملک کی مشکلات دوسرے ملک کے دروازے پر آن کھڑی ہوتی ہیں۔یہ کہنا ناگزیر ہے کہ خیبر پختونخوا کے حالیہ آپریشن صرف ایک حفاظتی اقدام نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہیں۔ یہ پیغام دہشت گردوں کے لیے ہے کہ ان کا انجام عبرت ناک ہے، بیرونی قوتوں کے لیے ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کسی کو سودے بازی نہیں کرنے دے گا اور دنیا کے لیے ہے کہ امن اور ترقی کی راہ پاکستان کی قربانیوں سے ہو کر گزرتی ہے۔ آج اگر ہم ان شہیدوں کے لہو کی لاج رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک متحد قوم کی طرح دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، بیرونی مداخلت کو ناکام بنانا ہوگا اور خطے کے امن کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن اس کا انجام ضرور پاکستان کے حق میں لکھا جائے گا اگر ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھا اور دشمن کو یہ باور کرا دیا کہ یہ قوم اپنے لہو سے تاریخ کے نئے باب لکھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ دہشت گردی کسی ایک سرحد کی اسیر نہیں۔ لہذا اس مسئلے کا حل بھی اجتماعی اور علاقائی سطح پر تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان نے اپنی قربانیوں اور کامیاب آپریشن کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اب عالمی برادری اور خطے کے دیگر ممالک پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیں اور ان قوتوں کو لگام ڈالیں جو افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر کے خون کی ہولی کھیل رہی ہیں۔
٭٭٭















