وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی حکومت کرپشن کے خاتمے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کرپشن پاکستان کے معاشی، سماجی اور اخلاقی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اس ناسور نے سرکاری اداروں پر عوامی اعتماد متزلزل کیا، غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکا اور قومی ترقی کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔کرپشن کی جڑیں پاکستان میں گہری ہیں۔ قومی احتساب بیورو ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور دیگر اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کرپشن بدقسمتی سے ایک منظم رویے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سرکاری ٹھیکوں کی بندر بانٹ، ٹیکسوں میں چوری، زمینوں کے ناجائز قبضے، رشوت، اقربا پروری اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال عوامی اداروں میں معمول بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بارہا غیر یقینی کا شکار رہی، ملکی سرمایہ کاروں نے بیرون ملک سرمایہ منتقل کیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے یہاں طویل المدتی منصوبوں سے گریز کیا۔کرپشن کا سب سے بڑا نقصان قومی معیشت کو ہوتا ہے۔ جب فیصلہ سازی میرٹ کے بجائے تعلقات یا رشوت پر مبنی ہو تو معیار، مسابقت اور انصاف کا تصور ماند پڑ جاتا ہے۔ کاروباری ماحول غیر شفاف ہو جاتا ہے، چھوٹے سرمایہ کار مایوس ہو کر میدان سے ہٹ جاتے ہیں اور عوامی منصوبے لاگت سے کئی گنا زیادہ خرچ کر کے مکمل کیے جاتے ہیں۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کرپشن ترقی پذیر ممالک میں مجموعی قومی پیداوار کا اوسطا 2 سے 3 فیصد کھا جاتی ہے۔ پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے یہ نقصان کسی زلزلے سے کم نہیں۔ کرپشن کے باعث سرمایہ کاری کے عالمی اشاریوں میں پاکستان کی درجہ بندی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے شفافیت، سیاسی استحکام اور ادارہ جاتی اصلاحات بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن جب کسی ملک میں یہ تاثر پھیل جائے کہ یہاں انصاف خریدا جا سکتا ہے، فائلیں رشوت کے بغیر نہیں چل سکتیں اور پالیسیوں میں تسلسل نہیں تو سرمایہ کار اپنے وسائل محفوظ تر معیشتوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کئی سال سے جمود کا شکار ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے کرپشن کے سدباب کے لیے کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد اداروں کو خود مختار، شفاف اور احتساب کے قابل بنانا ہے۔ سب سے پہلے سرکاری محکموں میں ای گورننس کے فروغ پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ انسانی مداخلت کم ہو اور فیصلے ڈیجیٹل نظام کے تحت خود کار طور پر ہوں۔ نادرا، ایف بی آر اور پاسپورٹ دفاتر میں کمپیوٹرائزیشن کے نتیجے میں رشوت کے کئی دروازے بند ہوئے ہیں۔ اسی طرح سرکاری ٹھیکوں کے لیے آن لائن بولی کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس سے شفافیت میں اضافہ ہوا ہے۔حکومت نے سرکاری افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے ایک نیا مانیٹرنگ فریم ورک تیار کیا ہے۔ اس کے تحت محکموں کی کارکردگی کو عوامی خدمات کی فراہمی اور مالی شفافیت کی بنیاد پر جانچا جائے گا۔ وزیر اعظم نے متعدد اجلاسوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی افسر یا وزیر کے خلاف کرپشن کی شکایت کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انفارمیشن کمیشن اور نیب جیسے اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کو سیاسی انتقام کے بجائے شواہد اور میرٹ کی بنیاد پر انجام دیں۔ تاہم، کرپشن کے خاتمے کے لیے صرف حکومتی اعلانات یا جزوی اصلاحات کافی نہیں۔ مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر طاقتور افراد کو استثنی حاصل رہا تو احتساب کا تصور کمزور پڑ جائے گا۔ دوسرا، عدالتی نظام کو تیز اور موثر بنانا ضروری ہے تاکہ کرپشن کے مقدمات برسوں عدالتوں میں التوا کا شکار نہ رہیں۔ تیسرا، عوامی شعور بیدار کرنا ہوگا کیونکہ کرپشن صرف سرکاری دفاتر میں نہیں، بلکہ عام شہریوں کے رویوں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ اس ضمن میں تعلیم اور میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ پارلیمنٹ کو بھی اپنی نگرانی کا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔کرپشن کے خاتمے کو موثر بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی سطح پر ایک “انسدادِ کرپشن پالیسی فریم ورک” تیار کرے جو طویل المدتی ہو اور جس میں تمام ادارے، صوبائی حکومتیں، عدلیہ، میڈیا، اور سول سوسائٹی شامل ہوں۔ اس پالیسی کا مقصد صرف مجرموں کو سزا دینا نہیں بلکہ ایسا نظام تشکیل دینا ہونا چاہیے جس میں کرپشن کی گنجائش ہی نہ رہے۔ مثال کے طور پر سرکاری خریداری، لائسنسنگ، زمینوں کی الاٹمنٹ، اور ٹیکس وصولی کے تمام مراحل کو ڈیجیٹل کر دیا جائے۔ کرپشن کے خلاف جنگ ایک دن یا ایک سال کا منصوبہ نہیں بلکہ ایک مسلسل قومی جدوجہد ہے۔ پاکستان کے عوام، اداروں اور قیادت کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کرپشن کے ساتھ سمجھوتہ کرتے رہیں گے یا اسے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے متحد ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم کا عزم درست سمت کی نشاندہی ہے مگر منزل تک پہنچنے کے لیے صرف نیت نہیں، انتظامی استقامت اور اجتماعی ارادہ درکار ہے۔ اگر حکومت اپنے وعدوں کو عملی شکل دے، عدلیہ انصاف کو تیز کرے اور عوام اپنا کردار ادا کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک شفاف، باوقار اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر دنیا کے سامنے کھڑا ہوگا۔
٭٭٭












