وحانیت کے نام پہ یہ شرکِ بے مثال
رقصاں لبوں پہ زیست کے بس ایک ہی سوال
اِس قومِ بد نصیب کا آخر ہے کیا مآل
پِیروں کا یہ عروج ہے، اسلام کا زوال
کس محفلِ خراب میں لایا گیا ہوں میں
کن جاہلوں کی بھیڑ میں لایا گیا ہوں میں
کیا رنگِ صبحِ فردا ہے، کیا رسمِ دوش ہے
الحاد کے لہو میں عقیدت کا جوش ہے
یعنی لباسِ دین میں، یہ دیں فروش ہے
تھے لوگ شاخِ سبز کی مانند جھومتے
اٹھ اٹھ کے اپنے پیِر کے پاں کو چومتے
توحید جن کا شیوہ تھا، وہ بت پرست ہیں مرشد کے پاں چوم کے یہ لوگ مست ہیں
یہ بے نیازِ معنء ہر بود و ہست ہیں
سر کو جھکا کے بیٹھے ہیں، یہ کتنے پست ہیں
تقلیدِ شیخ سنتِ اربابِ بزم ہے
یہ خانقاہ فتن میدانِ رزم ہے
بھوکے تھے جو کہ لقمعہِ نانِ شعیر کے
زر کو نثار کرتے تھے قدموں کے پِیر کے
یہ معرکے بھی دیکھے ہیں، میں نے فقیر کے
پیڑے اٹھا اٹھا کے وہ کھاتا پنیر کے
ہر شخص اس کے پاں پہ رکھتا تھا جا کے نوٹ
تھا وجد میں وہ پِیر بھی باندھے ہوئے لنگوٹ
حسنِ ادب سے مجھ سے کہا اک مرید نے
کچھ آپ پر اثر کیا بزمِ سعید نے؟
سینچا ہے نخلِ عشق کو مردِ وحید نے
دل خوش کیا ہے آپ کا تازہ نوید نے؟
کیا دستِ پِیرِ عصر پہ بیعت کریں گے آپ؟
قدموں میں میرے پِیر کے سر کو دھریں گے آپ؟
میں نے کہا یہ شیو اہلِ صفا نہیں
یہ درسِ زندگی تو نبی نے دیا نہیں
سجدہ حضورِ پِیر کہیں بھی روا نہیں
جھکتا ہے پیشِ پِیر جو اس کا خدا نہیں
بگڑے ہوئے نصیب کو خود ہی بنائیے
قدموں پہ زندگی کو جھکانا سکھائیے
٭٭٭













