کراچی:
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر بیمار ہوچکی ہے اور آئی ایم ایف نے اس کے لیے ایک بار پھر وہی نسخہ تجویز کیا ہے کہ ’ زہر کو زہر ہی مارتا ہے ۔‘
پبلک فنانسز کی بدانتظامی اور حد سے زیادہ قرضے لینے کے ’ مرض‘ کا علاج آئی ایم ایف سے مزید قرض لے کر کیا جارہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض لیا جارہا ہے۔ 2019ء میں آئی ایم ایف سے 22 ویں بار قرض لیا گیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ، کرنسی کو آزاد چھوڑ دینے کے سنگین سماجی اثرات برآمد ہوں گے۔
اگرچہ اسٹیٹ بینک اور کیو بلاک کی جانب سے یقینی دہانی کرائی جارہی ہے کہ معیشت بحران سے نکل رہی ہے تاہم آئی ایم ایف سے معاہدے کے طویل مدتی اثرات ابھی واضح نہیں ہوئے۔ اس ضمن میں ہمیں مصر کی صورتحال کو پیش نظر رکھنا ہوگا جہاں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے بعد تنخواہوں اور فیول سبسڈیز میں کٹوتیوں اور ملازمتوں کے خاتمے کی صورت میں سماجی بحران جنم لے رہا ہے۔
ورلڈ بینک کی اپریل 2019 میں شائع شدہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مصر کی 60 فیصد آبادی غریب ہے اور وہاں معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے اثرات میکرو لیول پر دیکھے جاتے ہیں مگر معاشی اصلاحات کے فوائد اس وقت تک عام افراد کو منتقل نہیں ہوتے جب تک کہ حکومت سنجیدہ اقدام نہیں کرتی۔