لاہور:
پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس کی اندرونی کہانی منظر عام پر آگئی، پراسیکیوٹر نے اسکینڈل میں ملوث تمام افراد کے کرداروں سے پردہ اٹھا دیا۔
پی ایس ایل ٹو کے آغاز پر سامنے آنے والے اسپاٹ فکسنگ کیس میں شرجیل خان،خالد لطیف، شاہ زیب حسن، محمد عرفان اور ناصر جمشید کو پی سی بی کا ٹریبیونل مختلف مدت کیلیے پابندیوں کی سزائیں سنا چکا ہے، اسی کیس سے متعلق ناصر جمشید برطانوی عدالت میں بھی الزامات کا سامنا کررہے ہیں، مانچسٹر کراؤن کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر اینڈریو تھامس نے بتایا کہ برطانیہ کے ایک انڈر کوور پولیس افسر نے جوئے کے ریکٹ کا رکن بن کر کرپشن کو بے نقاب کیا۔
بنگلادیش پریمیئر لیگ 2016 میں اس سے ہونے والی ڈیل کے مطابق اننگز کے آغاز میں ناصر جمشید کو 2ڈاٹ بالز کھیلنا تھیں،اس پلان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، پی ایس ایل 2017 میں بکیز یوسف انور اور محمد اعجاز کے ذریعے ہونے والی ڈیل میں کرکٹرز نے وہی کیا جو ان کو کہا گیا تھا،انھوں نے وعدے کے مطابق ڈاٹ بال کھیلیں، اس کام میں ناصر جمشید سہولت کار اور انھوں نے کرکٹرز کو اسپاٹ فکسنگ پراکسایا تھا، پلان پر جس طرح عمل درآمد ہوا پراسیکیوٹر نے اس کی تمام تر جزئیات بھی عدالت کے سامنے پیش کیں۔
انھوں نے کہا کہ ناصر جمشید کے ساتھ معاملات طے ہوئے لیکن رنگپور رائیڈرزکی جانب سے میچ کے دوران وہ بیٹ گرپ کے رنگ سمیت ڈاٹ بال کیلیے مطلوبہ سگنل نہیں دے سکے۔ اگلے میچ کیلیے بھی معاملات طے ہوئے لیکن ناصر جمشید کو ٹیم نے ڈراپ کردیا، اگلا ہدف پی ایس ایل کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا، جنوری2017 میں انڈرکور پولیس افسر کی دوبارہ یوسف انور اور ناصر جمشید سے برمنگھم میں ملاقات ہوئی،فون پر بات کے بعد انور نے دبئی میں ڈیل کی تسلی کرلی جس کے مطابق شرجیل خان کو2 ڈاٹ بالز کھیلنا تھیں۔
میچ کے روز اوپنر نے سگنل دیے تو یوسف انور نے انڈر کوور پولیس افسر کو فون پر پیغام میں تصدیق کردی کہ سب کچھ طے شدہ پلان کے مطابق ہوگا، پھر ایسا ہی ہوا،میچ سے قبل اور بعد میں یوسف انور اور ناصر جمشید کے درمیان پیغامات کا تبادلہ بھی اس ڈیل کو ثابت کرنے کیلیے کافی ہے،خالد لطیف کے بیگ سے مختلف رنگوں کی گرپس برآمد ہوئیں،لندن پہنچتے ہی یوسف انور اور والسال میں اپنے گھر پر موجود ناصر جمشید کو گرفتار کرلیا گیا۔