طوطا چشم بنگلہ دیش کی آنکھوں پر ’’سیاسی پٹی ‘‘ بندھ گئی

0
434

لاہور / کراچی:

طوطا چشم بنگلہ دیش کی آنکھوں پر’’سیاسی‘‘ پٹی بندھ گئی، پاکستان میں سری لنکنزکی شاندار میزبانی بھی سوچ نہ بدل سکی، سابق کرکٹرز نے بھی بی سی بی کے رویے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے،عامر سہیل نے کہاکہ بنگلہ دیش کو انٹرنیشنل اور ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، اب احسان کا بدلہ چکانے کا وقت ہے، کیا کوئی سیاسی مسائل تو رکاوٹ نہیں بن رہے۔

وسیم باری نے کہا کہ انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا، شاید مہمان ٹیم کو آئی سی سی چیمپئن شپ پوائنٹس گنوانے کا خوف ہے۔ اقبال قاسم نے کہا کہ سانحہ کا شکارہونے والی ٹیم کھیل چکی، بنگلہ دیش کیوں خدشات کا اظہار کر رہا ہے، فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔دوسری جانب پی سی بی گذشتہ کامیاب انٹرنیشنل ٹورز کی بنیاد پر بنگلہ دیشی بورڈ کو قائل کرنے کیلیے کوشاں ہے،نئی تجاویز ارسال کردیں اور اب جواب کا انتظار ہے۔

دریں اثنا بہترین پاکستانی سیکیورٹی انتظامات اور شاندار میزبانی نے سری لنکن کرکٹرز کے دل جیت لیے اور وہ یہاں سے خوشگوار یادیں لے کر وطن واپس پہنچے، آفیشلز کی جانب سے اس کا برملا اعتراف بھی کیا جا رہا ہے،گذشتہ روز چیف سلیکٹر اشانتھا ڈی میل نے کہا کہ پاکستان میں فراہم کی جانے والی سیکیورٹی شاندار تھی،کھلاڑیوں کو گھومنے پھرنے، شاپنگ مالز کی سیر اور ریسٹورینٹس میں جانے کا بھی موقع ملا۔  تفصیلات کے مطابق آئی لینڈرز کی ٹیسٹ سیریز میں میزبانی پر دنیائے کرکٹ کی نظریں تھیں۔

 

انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحالی کے سفر میں یہ اہم سنگ میل عبور کرنے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بنگلہ دیشی بورڈ کو اگر کوئی تحفظات ہیں بھی تو ختم ہوجائیں گے لیکن معاملہ برعکس نظر آرہا ہے،قبل ازیں ٹال مٹول سے کام لینے والے بی سی بی نے پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے سے تو یکسر انکار کردیا، ٹی ٹوئنٹی سیریز کو بھی شکوک میں ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ٹور پر کرکٹرز کی آمادگی ظاہر کیے جانے پر اگر مضبوط اسکواڈ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے تو کھیلنے کیلیے جائیں گے،بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں پاکستان کا اہم کردار تھا مگر اب وہ آنکھیں پھیر کر بھارت کے قریب ہو چکا ہے۔

بنگلہ دیش کی طوطا چشمی کے حوالے سے سابق کرکٹرز کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے، عامر سہیل نے کہاکہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو انٹرنیشنل اور ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے میں اہم کردار ادا کیا، ان کو احسان کا بدلہ چکانا چاہیے تاکہ ہمارے شائقین اپنے ملک میں اسٹار کرکٹرز کو ایکشن میں دیکھ سکیں، انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی سیاسی مسائل تو دورے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہے۔ سابق کپتان وسیم باری نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلنا چاہتی، ایم سی سی اوردیگر ٹیمیں آ رہی ہیں تو انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا، شاید پاکستان کے ہوم گراؤنڈز پر پوائنٹس چھن جانے کا خوف ہے،اگر وہ نہ کھیلے تو پوائنٹس ویسے بھی گنوانا پڑیں گے۔

کرکٹ کے بہترین مفاد میں ہی بنگلہ دیش ٹیم یہاں آکر کھیلے۔ سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم نے کہا کہ حیرت کی بات ہے کہ سانحہ کا شکارہونے والی سری لنکن ٹیم تو پاکستان آکر کھیلی اور کوئی مسئلہ نہ ہوا لیکن بنگلہ دیش خدشات کا اظہار کر رہا ہے، بی سی بی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے، سابق ٹیسٹ بولر جلال الدین نے کہا کہ بنگلہ دیش کو پاکستان آکر ٹیسٹ سیریز کھیلنا ہوگی ورنہ اس کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔ سابق سلیکٹر شعیب محمد نے کہا کہ پاکستان نے سری لنکا کی شاندار میزبانی کی، سیکیورٹی اداروں نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا، بنگلہ دیش کو یہاں آکر کھیلنے میں اعتراض کیوں ہے؟ شاید بی سی بی اپنی ٹیم کو کمزور سمجھ کر دورے سے گریزاں ہے۔ سابق وکٹ کیپر بیٹسمین سلیم یوسف نے کہا کہ سری لنکا کیخلاف ٹیسٹ سیریز کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔

اب اگر بنگلہ دیشی ٹیم نہیں آ رہی تو آئی سی سی کو ایکشن لینا چاہیے، سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد خان نے کہا کہ بنگلہ دیش جانتا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط ٹیم ہے، اسے ہارنے کا خوف لاحق ہوگا،وہ بھارت کی جانب سے بھی دباؤ کا شکار ہے۔

ادھر پی سی بی گذشتہ کامیاب انٹرنیشنل ٹورز کی بنیاد پر بنگلہ دیشی بورڈ کو قائل کرنے کیلیے کوشاں ہے،نئی تجاویز ارسال کردیں اور اب جواب کا انتظار ہے، بی سی بی کی جانب سے24دسمبر کو موصول ہونے والے جواب پر پاکستان نے جمعرات کو ہی خط میں سوالات اٹھائے تھے اور جواب کا انتظار کیا جارہا ہے۔ دریں اثنا سری لنکن چیف سلیکٹر اشانتھا ڈی میل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی شاندار تھی،گذشتہ ٹور میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میچز کھیلنے کیلیے گئے تو ہوٹلز تک محدود رہنا پڑا، اس بار حفاظتی حصار موجود تھا لیکن کرکٹرز کو گھومنے پھرنے، شاپنگ مالز کی سیر اور ریسٹورینٹس میں جانے کا بھی موقع ملا۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here