ایک ارب کا فنڈ مبینہ طورپرہڑپ کرنے کا منصوبہ ناکام

0
117

کراچی:

ایک ارب سے زائد کا فنڈ مبینہ طور پر خرد برد کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ،وزیر بلدیات کی جانب سے چیئرمین اینٹی کرپشن کو تحقیقات اور کارروائی کے لیے لکھے گئے خط کے بعدکرپٹ افسران اور جعلساز ٹھیکیداروں میں کھلبلی مچ گئی،دوہری شہریت کے حامل افسران نے ملک سے فرار کی تیاریاں کرلیں۔

تفصیلات کے مطابق وزیر بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ کی جانب سے کے ڈی اے کے10ترقیاتی کاموں کی جعلسازی کے ذریعے خریدوفروخت میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے چیئرمین اینٹی کرپشن کو لکھے گئے خط کے بعد سرکاری خزانے پر ایک ارب روپے سے زائد کا ڈاکا ڈالنے کا منصوبہ بنانیوالے افسران وٹھیکیدار سمیت ایجنٹ مافیاکی نیندیںاڑ گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بوگس ٹینڈرنگ اور جعلسازی کے ذریعے ٹھیکے ٹھکانے لگانے میں ملوث بعض افسران نے ملک سے فرارکی تیاریاں کرلی ہیں جوکہ دوہری شہریت کے حامل بتائے جاتے ہیں،یادرہے کہ کے ڈی اے کے 10ترقیاتی کام جس کی تخمینی لاگت80کروڑ روپے مقرر کی گئی تھی اور مذکورہ کاموں کی این آئی ٹی ابھی جاری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایجنٹ مافیا نے افسران کی مبینہ ملی بھگت سے سیکریٹری بلدیات کے دفتر کے ایک آرڈر نمبر SO(G)/HTP/KDA/8-165/2019 کے ذریعے اسائمنٹ آف ڈیوٹیز کے نام سے لیٹر جاری کرایا۔

 

جس میں کے ایم سی کے انجینئر ظہیر عباس کو کے ڈی اے کا ایکسئن ظاہر کیا گیا جبکہ ان کے علاوہ سید محمد رضا اسسٹنٹ انجینئر کے ڈی اے،طلعت بھٹی سب انجینئر کے ڈی اے اورحسین علی جعفری اکاؤنٹ آفیسر کے ایم سی پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس کو ٹینڈر کرانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

مذکورہ کمیٹی کی تشکیل کا لیٹر سیکریٹری بلدیات کے دفتر سے سابق ڈی جی کے ڈی اے بدر جمیل میندھرو کی درخواست پر جاری کیا گیا،دستاویزات کے مطابق 10اکتوبر2019 کو ایک لیٹر نمبرDG/EnggDeptt/KDA/4871/2019 کے ذریعے ڈی جی کے ڈی اے بدر جمیل میندھرونے مذکورہ کمیٹی بنانے کی سیکریٹری بلدیات سے درخواست کی تھی ،ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیٹی بنائے جانے کے لیٹر سے کے ڈی اے محکمہ انجینئرنگ کے افسران کو بھی لاعلم رکھا گیا اور بوگس طریقے اور جعلسازی سے مذکورہ کاموں کے ٹینڈر بھی کردیئے گئے۔

مذکورہ بدعنوانی کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب کے ڈی اے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے مذکورہ کاموں کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں اشتہار دیا اور ٹینڈر کرنا چاہا تو مبینہ جعلسازی سے پہلے ٹینڈر کرنے والے افراد نے سیکریٹری بلدیات کو ٹینڈر رکوانے کی درخواست کی اور موقف اختیار کیا کہ کے ڈی اے ان کاموں کے پہلے ہی ٹینڈر کرچکا ہے اور اب دوبارہ ٹینڈر کیے جارہے ہیں،اس حوالے سے جب کے ڈی اے سے رپورٹ طلب کی گئی اور دستاویزات بھیجی گئیں تو کے ڈی اے افسران سنگین جعلسازی پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

کے ڈی اے نے تمام تحقیقات کے بعد رپورٹ تیار کر کے سندھ حکومت کو ارسال کی اور واضح کیا کہ سابقہ ٹینڈر سے کے ڈی اے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ سیکریٹری بلدیات کے حکم پر بنائی گئی کسی ٹینڈر کمیٹی یا اسائمنٹ آف ڈیوٹیز کے کسی لیٹر کا علم ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ بوگس ٹینڈرنگ کی جو دستاویزات جمع کرائی گئیں تھی ان کی تحقیقات کی گئیں تو تمام دستاویزات بوگس اور جعلسازی سے تیار کی ہوئی نکلیں، اور اس سلسلے میں سیپرا کی جو آئی ڈی دکھائی گئی وہ جعلی نکلی اسی طرح بڈ ایلویشن رپورٹ بھی جعلسازی سے گھر میں ہی تیار کرکے لگادی گئی۔

مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ چند مخصوص اخبارات میں این آئی ٹی کا اشتہار دیا گیا جو کہ کے ایم سی کے ایکسئن ظہیر عباس نے کے ڈی اے کا ایکسئن ظاہر کرکے دیا جس کے حوالے سے کے ڈی اے میڈیا ڈیپارٹمنٹ نے ریلیز آرڈر کو بوگس قرار دیدیا،اسی طرح ٹینڈر ایوارڈ کرنے سے قبل کیے جانے والے ایگریمنٹ پر سابق ڈی جی کے ڈی اے بدر جمیل میندھرو نے دستخط کئے جبکہ ورک آرڈر کے ایم سی کے ایکسئن ظہیر عباس نے جاری کئے۔

جس میں انہوں نے خود کو کے ڈی اے کا ایکسئن ظاہر کیا،مذکورہ 80کروڑ کے کام ایک ارب روپے سے زائد میں جعلسازی سے ایوارڈ کیے گئے،سنگین بدعنوانیوں اور جعلسازیوں کابھانڈا پھوٹنے پر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی سختی سے نوٹس لیا گیا ہے اور وزیر بلدیات سندھ نے ان کاموں کی تحقیقات اور ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کے لیے چیئرمین اینٹی کرپشن کو گذشتہ دنوں خط ارسال کیا تو کرپٹ افسران کی نیندیں اڑ گئی ہیں،اس سلسلے میں کراچی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے ملوث افسران کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

جنرل سیکریٹری عبدالرحمنٰ اور انفارمیشن سیکریٹری سعید مغل کا کہنا ہے کہ جعلسازی میں ملوث افسران دوہری شہریت کے حامل ہیں جو ملک سے فرار کی کوشش میں لگے ہوئے ان افسران کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں اور کراچی کی ترقی کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ایجنٹ مافیا اور ان کے سہولت کار افسران کا کڑا احتساب کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here