عامر بیگ
اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دو مسئلے گمبھیر صورت حال تک پہنچ ہوئے ہیں جن کا سدباب کردیا گیا ہے یا عنقریب ہو جائے گا، ایک غریب کی کمر توڑتی ہوئی مہنگائی اور دوسرا سیاسی افراتفری مہنگائی کے لیے جیسا کہ پہلے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کے ذمہ قرضہ جات کی ادائیگی کی مد میں ریوینیو اکٹھا کرنے کی غرض سے لگائے ئے ٹیکسز اور گزشتہ حکومتوں میں عوام کو دی گئی چھوٹ کو ہٹایا جانا ضروری تھا ورنہ ملک کے دیوالیہ نکل جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا ۔خان حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات سے چونکہ اب معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور تیل کی قیمتیں تیل کی عالمی منڈی میں گرنے سے اب یہ امید ہو چلی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ غریب عوام کو کھانے پینے کی اشیا سستی اور بہم پہنچائی جائیں لحازہ مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور روزمرہ کے کھانے کی اشیا مثلاً” آٹا ،چینی ،دالیں، گھی اور سبزیوں کی نہ صرف قیمتیں کم کرنا ضروری ہے بلکہ ہو سکے تو انتہائی غریب عوام کو راشن کارڈ کے ذریعے مفت فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے ،فیدیل کاسترو ۴۹ سال تک حکمران رہا اس نے عوام کے پیٹ کو کبھی بھی بھوکا نہیں رہنے دیا اور پبلک سیفٹی پر کبھی کمپرومائیز نہیں کیا۔ہوگوشاویز خود شام میں ٹی وی پر بیٹھ کر غریبوں کو کھانا کھلانے بارے دن بھر کی رپورٹ دیتا اور لیتا تھا جب اسے زبردستی اتارنے کی کوشش کی گئی تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تب تک گھروں کو نہیں لوٹا جب تک خود صدرشاویز نے کھڑکی میں آکر نہیں کہہ دیا سب ٹھیک ہے، اب آپ لوگ گھروں کو جاو¿ ،ان دونوں ملکوں بارے راقم آنکھوں دیکھا لکھتا ہے۔ خان صاحب توجہ! اب آتے ہیں سیاسی افراتفری کی طرف، خان حکومت کے آتے ہی ان کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع ہو گئیں تھیں، سیاسی مافیاز سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی بڑی تبدیلی رونما بھی ہو سکتی ہے۔ پچھلے تیس سال میں کیا کچھ نہیں کیا گیا کتنی حکومتیں بنیں اور ٹوٹیں کتنے اتحاد بنے اور ٹوٹے کتنے بلف ہوئے اور ان تمام پارٹیوں کے تجربہ کار کھلاڑی اب پی ٹی آئی حکومت میں اکٹھے ہو گئے ہیں ۔خان نے 2013 کے الیکشن سے بہت کچھ سیکھ لیا تھا ،الیکٹبلز کے بغیر حکومت بنانا بہت مشکل تھا اور مافیاز پر ہاتھ ڈالنا تقریباً ناممکن ،تجزیہ نگاروں نے اپنی اپنی طوطیوں میں بہت پھونکیں ماریں لیکن خان جو طے کر چکا تھا کر کے چھوڑا کہیں کہیں وہ اپنے موقف سے ہٹا تو یو ٹرن کا نام دے دیا گیا۔ کیا کیا طعنہ زنی نہیں ہوئی لیکن خان ڈٹا رہا اب جبکہ حالات پلٹا کھانے کو ہیں تیئس سال کا تجربہ اس بات کی غمازی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ اپوزیشن کے سیاسی پنڈتوں کے ساتھ گیم ہو گئی ہے ۔خان کے اتحادیوں نے اپوزیشن سے مال بھی سمیٹا ان کو ہوپ بھی دلوائی میڈیا نے ہائپ بنائی بیماروں شماروں سے توجہ بھی ہٹوائی اور پھر بازی پلٹ گئی، اب جب کہ حکومت کے پاس حکومت کے اتحادیوں کو دینے کے لیے مال بھی نہیں تھا وہ بھی خوش اپوزیشن بات نکالے گی تو کس بل بوتے پر خان پرانا کھلاڑی ہے انتخاب عالم کے دور میں اس طرح کی ڈبل وکٹ کھیلنے کا طریقہ جانتا ہے، سو ڈبل گیم ہو گئی ،اب کبھی خان جب فارغ وقت میں اپنی کتاب لکھے گا تو اس گیم کا ذکر بھی آئیگا۔۔
٭٭٭