ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
قارئین قرآن مجید میں ارشاد ہے، ہل جزا الاحسان الا الا حسان، انگریزی میں کہا جاتا ہے! tit for tat، اردو میں کہتے ہیں کر بھلا ہو بھلا میرا تجربہ و مشاہدہ ہے نیکی ضائع نہیں ہوتی ہے۔ یہ سطور لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ امام موسیٰ کاظمؑ کی سالانہ مجلس عزاءپڑھنے پارک ول پہنچا جہاں سید قلب عباس شاہ کاظمی نے شرکاءکیلئے بڑا خاص اہتمام کر رکھا تھا۔ وہ یہ مجلس سالانہ کراتے ہیں اور جی کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی وہ پروگرام کراتے ہیں جیسے میلاد النبیﷺ کا جلسہ!
مولود کعبہ مجالس فاطمیہ محرم و صفر رمضان وغیرہ۔ ہر شب جمعہ کو سینٹر میں لنگر کا اہتمام کرتے ہیں۔ شاہ صاحب بڑے خلوص و عقیدت سے امام موسیٰ کاظمؑ کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہی حال ان کے خاندان کا پاکستان میں ہے، ان کے والد سید اقبال حسین شاہ کاظمی کمالیہ میں بڑی عقیدت کےساتھ مذہبی دینی خدمات انجام دیتے ہیں اور خود مقبول عوام با کردار پیر ہیں۔
قلب عباس شاہ کو الہ نے اولاد کی شکل میں اس کا بدلہ یوں دیا ہے کہ ان کی بیٹی ہر کلاس میں ٹاپ کر رہی ہے، اس کے تعلیمی اخراجات ایک امریکن کمپنی برداشت کر رہی ہے۔ ان کا بیٹا انتہائی لائق ہے، انہیں رزق و مال میں بھی کمی نہیں ہے۔ بعض لوگ بخل کرتے ہیں۔ اللہ بھی ان کو دینے میں کمی کر دیتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے دین کی خدمت کی ان کے بچوں کی اصلاح و قابلیت کی شکل میں اللہ عنایت فرماتا ہے۔ عنایت یہ ہے کہ بچے لائق بھی ہوں اور نیک بھی اگر لائق ہیں اور نیک نہیں تو عاقبت خراب۔ اگر نیک ہیں اور لائق نہیں تو دنیا خراب، مجھے اپنے گاﺅں کے بابا جی حاجی محمد سیکرٹری یاد آگئے جو ہر ایک سے سر کھجاتے ہوئے چندہ مانگتے تھے لوگ ان کی بے عزتی کرتے تھے وہ کبھی کبھی گھبرا بھی جاتے تھے میں تعلیمی مصروفیات کے دوران چھٹی پر گاﺅں آیا تو گلہ کرنے لگے میں نے کہا گلہ نہ کریں آج آپ کے 4 بیٹے گزیٹڈ آفیسرز ہیں دو دوسرے بھی بزنس میں ہیں۔ آج آپ گاﺅں کے امیر ترین انسان شمار ہو رہے ہیں اللہ آپ کو آپ کی اولاد کی لیاقت کی صورت میں بدلہ دے رہا ہے۔ ضروری نہیں انسان کو خود بدلہ ملے کبھی اولاد کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں گاﺅں میں بابا حیات سیکرٹری مرحوم کا نام بام عروج پر ہے۔ آج کل بلاد مغرب خاص طور پر نارتھ امریکہ میں پیسے کی دوڑ جاری و ساری ہے۔ بخل بڑھ رہا ہے، کنجوسی عروج پر ہے، دنیا کی دوڑ لگی ہے۔ دین کو پُشت دکھائی جا رہی ہے، نا آرام میسر ہے نہ سکون، نہ نماز کیلئے وقت ہے اور نہ قرآن کیلئے۔ نہ والدین کیلئے وقت ہے اور نہ اولاد کیلئے۔ خالق و مخلوق نظر انداز ہو رہے ہیں۔
اللہ کیلئے نہ ٹائم نکل رہا ہے نہ ہی پیسا۔ رقص و سرور کیلئے ہزاروں دینے والے مسجدوں کو ایک ڈالر دینے سے گھبرا رہے ہیں۔ علماءکو دینے کیلئے کوئی نہیں۔ ایکٹرز کی تجوریاں بھری جا رہی ہیں۔ یاد رکھیے اللہ کے دین کیلئے کی گئی خدمت رائیگاں نہیں جائیگی۔ بچپن کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ ہمارے خوشاب میں استاد انوالے محلہ میں استاد انوالی مسجد میں ہم جاتے تھے یہ اہل سنت کی مسجد تھی مگر شیعہ بھی وہاں نماز پڑھتے تھے۔
استاد انوالی مسجد کے مولوی نذیر صاحب، مولوی غلام حسن صاحب، جو حافظ استاد نذیر حافظ استاد غلام حسین کے نام سے معروف تھے بغیر مذہبی تعصب کے سب کی خدمت کرتے تھے۔ آج ان بزرگوں کے فرزندان حافظ مسعود اور حافظ عبدالباسط کی شکل میں پاکستان اور امریکہ میں مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور دنیاوی طور پر بھی وہ ان کے کزنز ٹاپ پر ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے سے کم اسٹیٹس ان لوگوں کا خوشاب میں نہیں ہے اور قرآن کی خدمت کی تو کوئی نظیر نہیں۔
یہ چند مثالیں میں نے اس لئے لکھی ہیں کہ دینی خدمت انجام دینے والے گھبرائیں نہیں اور نہ ہی ہمت چھوڑیں۔ مراکز دین کی خدمت کیجئے، کسی کی تذلیل نہ کیجئے، تعصب نہ رکھیئے، سخاوت سے رہیے، گالی گلوچ سے بچیے۔ دوسروں کو نیچا نہ دکھائیے۔ انشاءاللہ۔ اللہ آپ کی خدمت کو ضائع نہ کرے گا۔ قلب کاظمی جیسے ہزاروں نیک ایسے ہیں جنہیں اللہ جزائے خیر دے رہا ہے۔
قلت وقت کے باعث میں نے چند ہی مثالوں پر اکتفاءکیا ہے ورنہ اس موضوع پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ کالم ختم کرنے کیلئے قلم رکھا ہی تھا کہ خیال آیا کہ جب 1991ءمیں مین ہیٹن کے کشمیر ریسٹورنٹ میں ڈاکٹر مظہر ملک نے مجھے بلایا تھا جہاں اس وقت کے کرکٹر ارو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس وفاقی شرعی کورٹ پیر کرم شاہ الازہری میرے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے تھے اور ہم تینوں پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ تو کبھی سوچا نہ تھا عمران خان ایک زمانہ میں وزیر اعظم بن جائیں گے۔ اس لئے نہ ان میں سیاسی سوجھ بوجھ تھی اور نہ ذوق تھا۔ میرے خیال میں اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتا ل کے قیام اور دکھی انسانیت کے عوض اللہ نے انہیں اس منصب سے نواز دیا۔ اور جدی پشتی وڈیرے اور امیر غریب عوام کی دولت لوٹنے کے عوض سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ اس لئے ہر انسان کو جو عمل انجام دینا چاہئے اس کے رد عمل کی امید رکھنی چاہئے۔
میں تو گاﺅں کا رہنے والا ہوں کبھی یہ نہیں دیکھا گندم بیچیں اور چاول کاشت کریں جو لوگ لوٹ گھسوٹ بو رہے ہیں وہ لوگ خیر کیسے کاٹیں گے؟ جو بویا جائےگا وہی کاٹا جائےگا۔ اگرچہ حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے الدنیا مظھرة الاخرہ۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے تاہم قدرت اس کھیتی کے خوشے دنیا میں بھی دکھا دیتی ہے۔
شاہ ایران، صدام حسین اور قذافی وغیرہ کی رخصتی اور مظلوموں کی واپسی بھی اس کی مثالیں ہیں جہاں کر بھلا ہو بھلا مثالوں کی کمی نہیں وہاں اس امر کی بھی کمی نہیں کہ!
عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے