”گندی مچھلیاں“….قوم کا مقدر

0
316
شبیر گُل

شبیر گُل

پروفیسر حماد خان برانکس کمیونٹی کالج کے وائس چیئر ہیں، انکی وساطت سے کچھ روز پہلے ویمن حجاب ویک کا اہتمام کیا گیا جس میں تقریباً ایک سو ستر حجاب، جوس، پھل، سنیکس ، ڈرائی فروٹ اور اسلامی لٹریچر فری تقسیم کیا گیا،ہماری مسلمان بچیوں نے مسجد کے لئے نئے کار پٹ کی طرف توجہ دلائی جو نعیم بٹ صاحب اور راجہ ساجد صاحب نے نیا کار پٹ مسجد میں ڈالنے کی حامی بھر لی۔ برانکس کمیونٹی کونسل اور اکنا کی طرف سے مستحق طلبا کے لئے ہر ماہ فوڈ پینٹری اور کلوتھ ڈرائیو کا اہتمام کیا جا چکا ہے ۔اس کے علاوہ تین مزید کالجز میں مستحق بچوں کے لئے ہر ماہ کھانے اور پینڑی کااہتمام کیا جا رہا ہے ۔برانکس کمیونٹی کالج کے مسلم طلبا کی طرف سے چالیس افراد کے کھانے کے اہتمام کی استدعا کی گئی جس کو الحمدللّٰہ بروقت پورا کر دیا گیا۔اکنا ریلیف ماہانہ ایسے درجنوں پراجیکٹس کرتی ہے ۔ اس مستحسن اور بے لوث کام پر نیویارک کی کئی گندی مچھلیاں تڑپ اٹھتی ہیں۔ ان لعنتی کردار بے شرموں کو اچھائی میں بھی کیڑے نظر آتے ہیں۔ گندی نالی کے یہ کیڑے، جن کی زندگیاں بدکاری کا سمبل ہیں۔انکا حال بازار حس±ن کے ان دلالوں جیسا ہے جن کے کندھے پر بے غیرتی کی چادر ہوا کرتی ہے،ان کے چہروں پر خدا کی طرف سے برائی کی لعنت برس رہی ہے ۔پورے شہر میں تین چار گندی نالی کے یہ وہ کیڑے ہیں جو ہر ایک پر بھونکتے ہیں۔ ویسے کتے کا کام بھونکنا ہی ہوا کرتا ہے ۔ ان کو گندی نالی کا کیڑا کہیں یا گٹر کی پیداوار۔ گندے تالاب کی گندی مچھلی یا پھر گلی کے آوارہ کتے،ان پر یہ سبھی الفاظ صادق آتے ہیں۔
بچوں کیطرف سے چاول اور مچھلی کی فرمائش تھی۔اتفاقاً میں ا±س وقت قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھ رہا تھا جو مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہی تھی۔میں نے سوچا کاش کوئی بڑی مچھلی اس موقع پر کام آجاتی۔جسکو ذبیح کرکے نشان عبرت بنادیا جاتا۔پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ تو انتہائی متعفن اور گلی سڑی مچھلیاں ہیں۔ جو مختلف گٹروں سے ہوتی ہوئی قومی اسمبلی جیسے گندے نالے میں پٹوسیاں ماررہی ہیں۔انکی بدبو سے تو معاشرہ تعفن کا شکارہے ۔ایسی بدبودار بے نسلی مچھلیوں کو انہی گٹروں میں رہنے دیا جائے۔اس مچھلی منڈی کے بیوپاریوں کو کراچی ریلوے کی زد میں آنے والے غریبوں کے گھروں پر بات کرنے کا وقت نہیں۔
حکومت غریبوں کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر رہی ہے جن کوکہیں بسانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔اپوزیشن اور حکومت اس پر خاموش ہیں ، ان گماشتوں کا یہ عالم ہے کہ ”کہنے کو بہت کچھ، کرنے کو کچھ نہیں“اسمبلی میں بیٹھی گندی مچھلیاں،اپنے لیڈروں پر تنقید سے تو بھڑک اٹھتی ہیں لیکن جن عوام نے ان کو ووٹ دیکر بھیجا ہے ، انہیں کی مشکلات کا مقدمہ کوئی پیش نہیں کرتا۔یہ گٹر کی گندی مچھلیاں نہ کشمیر پر بولتی ہیں ، نہ بلوں میں اضافے پر احتجاج کرتی ہیں،عوام آپس میں دست و گریبان ،ڈاکوو¿ں، ل±ٹیروں اور وطن فروشوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
کشمیر س±لگ رہا ہے ،پوری قیادت جیلوں میں ہے ، نوے سالہ بزرگ رہنما سید علی گیلانی جیل میں ہے ۔نیلسن منڈیلا27 سال جیل کاٹ کر پوری دنیا کا ہیرو قرار پاتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مقید مسلم ا±مّہ کا سب سے بڑا قیدی اور عظیم رہنما سید علی گیلانی گزشتہ 60 سال سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مقتل میں کھڑا ہے جو نہ کبھی جھکا ہے نہ کبھی بکا ہے ،اور نہ ہی کبھی ا±سکے پایہ استقامت میں لغزش آئی ہے ۔حریت کانفرنس کا یہ نڈر اورعظیم رہنما،سید علی گیلانی بیماری کی حالت میں گزشتہ 10 سال سے گھر میں قیدہے۔ یہ مجاہد بیماری ،نقاہت اور کمزوری کے عالم میں “ پاک سرزمین” کی تسبیح کرتا ہے، اس جواں ہمت اور بے باک کشمیری رہنما کا آج کی نئی نسل کو “ کشمیر بنے گا پاکستان “ کا واضح پیغام ہے ۔کہ اپنے ا±صولی موقف سے کبھی پیچھے نہ ہٹو اور نہ ایمان کا سودا کرو۔جو غدار پاکستان میں رہ کر پاک دھرتی کے خلاف بکواس کرتے ہیں اور جو کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے۔سید علی گیلانی کا بیماری کی حالت میں پاکستان اور پاکستان کا مطلب کیا۔ کی تسبیح، ان بزدلوں اور ناشکروں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے ۔خصوصا قومی اسمبلی کے گٹر میں موجیں کرنے والی غلیظ ترین مچھلیوں کو غیرت دلانا ہے ۔کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ نواز شریف کی بعد ا±سکا بھائی ،ا±سکی بیٹی ،بھتیجا اس ملک کے والی وارث ہیں۔کہاں لکھا ہے کہ بھٹو کے بعد بیٹی ، ا±سکا خاوند اور پھر ا±سکا بیٹا ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہونگے۔ خواجہ صفدر اور پھر اسکا بیٹا۔غلام دستگیر اور پھر ا±سکا بیٹا۔
یار یہ کیا مذاق ہے ،ان گندے کیڑوں اور گندی مچھلیوں نے سارا ملک گندہ کر رکھا ہے ۔ گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کرتی ہے ۔ کچھ مچھلیاں گندے نالوں میں پل کر بڑی ہوتی ہیں جیسے ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ۔پی آئی اے کا بیڑا غرق ہوا اور نجی ائیر لائن نے ترقی کی۔ن لیگ نے ائیر لیگ کے ذریعے ہزاروں بھرتیاں کیں۔ پیپلز یونیٹی نے اپنے ہزاروں نااہل لوگوں کی بھرتیاں کیں۔جب تک پیاسی یونین الیکشن جیتی، پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ تھا۔جسے پی پی ، ائیر لیگ اور ایم کیو ایم نے تباہی کے دبانے پر پہنچایا۔پاکستان اسٹیل مل کو اسٹیل مافیا ، اقتدار لیگ نے جان بوجھ کر تباہ کیا، ان کی اپنی سٹیل انڈسٹری ترقی کرتی رہی۔
پاکستان ریلوے کو دانستہ طور پر بلور فیملی نے تباہ کیا، اپنی پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کو ترقی دینے کے لئے ،ریلوے کی کارگو سروس بند کی۔شوگر اور گندم مافیا نے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر چینی اور گندم کی امپورٹ پر پابندی لگائی ، خود ھی گندم اور چینی کاغذوں میں ایکسپورٹ کرتے۔ بحران پیدا کرنے کے بعد اپنے ہی گوداموں سے امپورٹ کی جاتی۔ملک کو دو دو ہاتھوں سے لوٹاگیا۔ان مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ایل این جی کا پندرہ سال کا قطر سے دوگنا قیمت پر معاہدہ کرکے اربوں ڈالر کمائے گئے۔ بجلی کے رینٹل پلانٹ لگا کر بجلی کو مہنگا کیا گیا۔ یہ عادی مجرم الیکشن بھی لڑتے ہیں ، اقتدار میں بیٹھ کر عوام کو بیووقوف بنا کر مہنگائی کارونا بھی روتے ہیں۔
ان گندی مچھلیوں نے ،پاکستان ریلوے ، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، جی ٹی ایس ( گورنمنٹ) ٹرانسپورٹ کو تباہ کیا۔ یہ مجرم اور غلیظ ترین مچھلیاں ابھی بھی اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں۔یہ واحد ملک ہے جہاں قومی ائیر لائن ،پی آئی اے کے CO نے جرمنی لے جا کر پی آئی اے کا جہاز بیچ دیا۔ ریلوے کے انجن بیچ دئیے گئے۔ ریلوے کی قیمتی اراضی پر قبضہ کرلیاگیا۔ زرداری اور نواز شریف نے بحریہ ٹاو¿ن کے مالک کو ٹکوں کے حساب سے لاکھوں ایکٹر اراضی تخفے میں دے دی۔
آئی ایم ایف کے نمائندے، پی پی،ن لیگ اور پی ٹی آئی کے دور حکومت میں منسٹری آف فنانس اور فنانس ایڈوائز بنائے جاتے ہیں جو اپنے ادارے کا تخفظ کرتے ہوئے،غریب عوام کی مہنگائی سے کمر توڑ دیتے ہیں۔ان گندی اور بد بودار مچھلیوں سے کب جان چھوٹے گی۔ کب ہماری اسمبلیاں ان گندی نالی کے کیڑوں سے پاک ہونگی۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی وہی گند ہے جو ہر دور میں تھا۔ وہی مشیر ،وہی وزیر ،وہی ایڈوائزرز ، ہر ادارہ کرپٹ ،ہر افسر رشوت خور ، ایک دور تھا جب ووٹ لینے والوں کا نعرہ نعرہ تھا۔ چہرے نہیں نظام کو بدلو۔اب تو چہرے بھی وہی ، نظام بھی وہی۔وزیر بھی وہی ،مشیر بھی وہی۔عوام کا اللہ حافظ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here