حیدر علی
ایسا معلوم ہورہا ہے کہ میرے دشمن کو فتح حاصل ہوتی جارہی ہے اور جو بارڈر وال میں نے اپنے گرد تعمیر کی تھی ، اُس کی دھجیاں اُڑنا شروع ہوگئیں ہیں، اب آپ خود ہی سوچئے ، جدھر کو نظر دوڑائیے ، صرف اور صرف یہی چرچا کورونا وائرس کا زبان زد عام ہے،ٹی وی کھو لئے ، خبر کے آغاز سے اختتام تک بس کورونا وائرس کورونا وائرس کی رٹ لگی ہوئی ہے اخبارات کو اٹھائیے سرخیوں پر سرخیاں کورونا وائرس سے بھری پڑی ہیں ، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے اخبارات اِس وباءسے پاک و صاف ہیں اور اُن کی سرخیاں وہی پرانے ڈھنگ میں تا ہنوز ڈھلیں ہوتی ہیں، مثلا ©”فلاں مرکزی وزیر نے اپنے ڈرائیور کی پٹائی کردی یا نہیں تو عورتوں کے مارچ میں مرد حضرات بھی گھس گئے، مارچ کی انتظامیہ نے وضاحت کرتے ہوے کہا کہ وہ مرد حضرات خواتین کے معشوقین نہیں بلکہ اُنکے والدین یا بھائی جان تھے اور وہ محض اُن کی نگرانی کر رہے تھے کہ کہیں لڑکی مارچ کے بہانے کسی سے ملنے تو نہیں جارہی ہے، کیا ونڈر فُل خبر ہے اور پھر جس شخص کو بھی گرانا ہوتا ہے تو اُس کے بارے میں یہ خبر گھڑ دی جاتی ہے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہوگیا ہے۔ اب آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی مثال لے لیجئے ، درجنوں مرتبہ ٹیلیویژن اور اخبارات کے نمائندے اُن سے استفسار کر رہے ہیں کہ کیا آپ نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کر والیا؟ وہ جواب دے رہے ہیں کہ” نہیں جی مجھے ٹیسٹ کروانے کی کیا ضرورت ہے، مجھے کورونا وائرس تھوڑے ہی نا ہے“ اخبارات کے نمائندے پھر اُن سے پوچھ رہے ہیں کہ کولمبیا یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بھی یہی کہا تھا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ غصے میں جواب دیتے ہیں کہ بھاڑ میں جائے کولمبیا یونیورسٹی کا طالب علم ، مجھے نہ ہی کوئی وائرس ہے اور نہ ہی مجھے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو رفیق کار کانگریس مین ائیر پورٹ پر اُن کا استقبال کرتے ہوے اُن سے ہاتھ ملایا تھا بعد ازاں اُن دونوں میں کورونا وائرس کی علامت پائی گئی اور وہ رضا کارانہ طور پر قرنطینہ میں مقید ہوگئے۔اب خبر آئی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائرس کا ٹیسٹ کروالیا ، اور نتیجہ منفی آیا ہے لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین اصرار کر رہے ہیں کہ صدر کو روزانہ کی بنیاد پر ٹیسٹ کروانا چاہیے۔
بہرکیف میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے جو کچھ بھی ہوگا اﷲ تعالی کی مرضی سے ہوگا ، لیکن میں اُس سے قبل اپنی تمام خواہشات کی تکمیلی کر کے ہی چین کی بانسری بجا¶نگا، سب سے قبل میری نظر ریفریجریٹر میں گاجر کے حلوے پر پڑی، اور میں نے سوچا کہ آخر میری بیگم کیا سوچیں گی کہ لاڈلا گاجر کا حلوا کھائے بغیر ہی چل بسا ، اِس لئے میں نے فورا”کافی مقدار میں حلوا نکال کر اُسے ہضم کر ڈالا تمام حضرات جانتے ہیں کہ مجھے آئسکریم سے کتنی زیادہ رغبت ہے بلکہ اِس کی جھلک میرے کالم میں بھی ملتی ہے جو کالم کم اور آئسکریم زیادہ ہوتا ہے۔ میں با آسانی ایک پِینٹ آئسکریم مزے لے لے کر ہڑپ کرجاتا ہوں لہٰذا ریفریجریٹر میں جو ونیلا آئسکریم موجود تھی میں اُس پر فورا”حملہ آور ہوگیالیکن آپ یہ نہ سوچیں کہ میں اپنی سب سے مرغوب غذا ستّو کو فراموش کر دونگا، لوگ کہتے ہیں کہ جس نے ستّو نہیں پیا وہ بہاری نہیں، اِس لئے پاکستان میں صرف بہاری اور پنجابی ستّو کھاتے ہیں ، اور دونوں ہی عقل کے مارے ہوتے ہیںلیکن میرا ستّو سٹیٹ آف دی آرٹ ہوتا ہے، جسے میں خالص گھی اور شکر سے پالش کر کے کھاتا ہوں اور ستّو ایجاد کرنے والے کو دُعائے خیر دیتا ہوں،بہاری کباب بھی مجھے بہت زیادہ پسند ہے بلکہ ہر دوسرے پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہاری کباب کھائے لیکن اُن میں سے بہت سارے بہاریوں کے خلاف سازشیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے بہتر یہی ہوگا کہ صرف وہی حضرات بہاری کباب کھایا کریں جو بہاریوں سے دوستی کے خواہاں ہوتے ہیں۔اِس اقدام سے بہاری کباب کی قیمت اور ذائقہ میں بھی استحکام آنے کے امکانات ہیں۔ بہر کیف بہاری کباب گھر میں موجود نہیں تھا، اِسلئے میں فورا”ڈرائیو کرکے جیکسن ہائیٹس بہاری کباب خریدنے پہنچ گیااور بہاری کباب کے ساتھ ساتھ ایک درجن رس ملائی، حلیم اور نہاری بھی خرید لی تاکہ بعد میں ملال کی کوئی گنجائش موجود نہ ہو۔
تاہم گھر سے نکل کر شاہراہ عام پر مٹر گشت کرنے کا ایک فائدہ مجھے ضرور ہوا، میں اپنے ارد گرد کے ماحول کا بنظر غائر مشاہدہ کر سکا،میں نے شاہراہوں پر دیکھا کہ کون ایڈیسن کے ٹیکنیشئن انتہائی مشقت کے ساتھ گہرے خندق کھود کر الیکٹرک کے کیبل بچھارہے ہیں، مزدوروں کی ٹیم در ٹیم بلند و بالا عمارت کے تعمیری کام میں مستعدی سے مصروف ہے۔ اسکول کے بچے قہقہہ لگاتے ہوئے ، ایک دوسرے کو چھیڑتے ہوے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ میں نے کسی کے چہرے پر مایوسی کی کوئی لہر دوڑتے ہوے نہیں دیکھی، میں نے کسی کو کورونا وائرس سے خوفزدہ نہیں پایا۔ البتہ مجھے ہر ایک کے چہرے پر مستقبل کیلئے امید کی جھلک نظر آئی پھر میں نے سوچا کہ گھر کے اندر ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے اور گھر سے باہر حقیقی دنیامیں جاکر اُس میں گھل مل جانے میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے، حقیقی دنیا ہی میں انسان زندہ رہنے کا عزم کرتا ہے، مسرت و شادمانی سے ہمکنار ہوتا ہے اور مستقبل کی دنیا کیلئے اپنے نقوش کو ثبت کرتا ہے، یہ ساری سوچ ، یہ سارے مشاہدے میرے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے اور میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہیں میں آج پھر اپنے عزم کا اعادہ کروں اور پارک میں جاکر 5 میل کی دوڑ لگا¶ں،چند لمحہ بعد ہی میں جاگنگ ٹریک پر فراٹے بھر رہا تھا، میرا ہر قدم میرے اعتماد میں حیرتناک اضافہ کر رہا تھا۔