رعنا کوثر
موسم بہار یعنی مارچ اور اپریل کا موسم یوں تو زندگی میں خوشی کی نوید لے کر آتا ہے مگر اس سال موسم بہار ایک خوف کے عالم میں گزرا ، ایک ایسی وبا چلی کے ہر شخص دبک کر اپنے گھر میں بیٹھ گیا۔ نہ وہ باغوں کی سیر ہوئی نہ ہی نئی کونپلوں کو کھلتے دیکھا، عجیب سا عالم رہا کچھ لوگ تو بھول بھی گئے ہونگے کہ بہار کا موسم آکر بھی گزر رہا ہے۔ ابھی بھی موسم گرما تو آیا نہیں ہے باہر کی ہوا اور فضاءبہت خوبصورت ہے ہلکی سردی اور گرمی کا امتزاج بہت سکون دینے والا ہے مگر باہر نکلنا منع ہے تو اندر سے ہی اس کی جو تازگی محسوس کرنے کا وقت ہے جو لوگ نیویارک میں اپنے گھر کے لان رکھتے ہیں یا نیویارک سے باہر اپنے بڑے اور کشادہ سبزہ زار ہوا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یہ وقت ایسا ہے کہ وہ صرف اپنے گھر کے اندر والے لان کو ہی وقت دے رہے ہیں اور اس کو بہتر سے بہتر بنا رہے ہیں۔ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں جن کو کبھی وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ اپنے پھول پودوں سے باتیں کرنے کا اور انہیں سجانے سنوارنے کا وہ اب بہت دلچسپی سے یہ کام کر رہے ہیں ،آج پھول ، پودے، گھاس اور زمین پر اُگنے والی چیزیں خوش ہیں کہ وہ انسان جو صرف باہر کی دنیا میں کھو گیا تھا ،سارا وقت سوشل بنا رہتا تھا ،آج ہمیں بھی جاندار سمجھ کر ہمارے اوپر وقت صرف کر رہا ہے ۔آج کی ٹیکنالوجی جہاں ہمیں بہت سارے فوائد سے آشنا کر رہی ہے وہاں یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ ہم صبح آنکھ کھلتے ہی فون تلاش کرتے ہیں ۔رات سونے سے پہلے فون پر نظر گاڑے تمام پیغامات دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر تمام پیغامات کے جواب دے رہے ہوتے ہیں مگر کسی اور جاندار چیز پر توجہ دینا بھول چکے ہیں، صبح باہر کی خوبصورتی آواز دے رہی ہوتی ہے ،یہ پھول پودے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی آکر ان سے باتیں کرے ،ان کی تراش خراش کرے ،ان پر توجہ دے مگر ہم اپنی ایک ایسی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں جو ٹی وی اور فون کی دنیا ہے مگر آج کل وقت بدلا ہے تو ہم تھوڑی بہت توجہ اس سے ہٹ کر اپنے لان پھول پودوں پر بھی دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ باہر کی تازہ ہوا بھی چاہئے ہوتی ہے ورنہ جن کے گھر میں لان تھے بھی ان کے گھر کا ایک فرد ہی جو شوقین ہوتا تھااس پر توجہ دیتا تھا۔ باقی افراد نئی دنیا میں کھوئے رہتے تھے۔ چاہے وقت جتنا بھی بدلے یہ ٹیکنالوجی ہماری دنیا میں جتنا بھی انقلاب لائے ،ان پھول ، پودوں پر توجہ دینا نہ بھولیں جو کشادہ گھروں میں رہتے ہیں جن کو اپنے گھر میں ایک ایسی وسیع جگہ میسر ہے جسے ہم لان کہتے ہیں۔ امریکہ میں بیک یارڈ بھی کہلاتا ہے ان کو اس نعمت کا ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ نیویارک اور بہت سے گنجان علاقوں میں عمارتوں میں رہنے والے اس نعمت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ہیں پھر بھی شوقین لوگ پارکوں میں چلے جاتے تھے یا پھر کہیں اور جا کر اپنا شوق پورا کر لیتے تھے ،اب وہ اپنے پھول پودوں کو بہت یاد کر رہے ہیں کہ باہر کی فضاءانہیں اجازت نہیں دے رہی کہ وہ قدرت سے لطف اندوز ہوں، اس لئے اپنے بیک یارڈ کو ایک نعمت سمجھیں۔ پھول پودوں، پتوں، درختوں کا اپنا ایک مقام ہے اور ہمیں انہیں وہ مقام دینا چاہئے کیونکہ قدرت کا نظام اور پیدا کی ہوئی چیزیں بلا وجہ اس دنیا میں نہیں آئی ہیں۔ آپ اپنے پھول اور پودوں سے باتیں کریں اور ان کو اپنا دوست بنا لیں ،باہر نہ جانے کا ڈپریشن دور ہو جائےگا۔
٭٭٭