لاک ڈان کے خلاف مسلح احتجاج!!!

0
285
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

کہنے کو تو نیویارک میں بھی سماجی دوری نافذالعمل ہے، یعنی کہ آپ ہر مقام پر کسی دوسرے شخص کے ساتھ 6 فٹ کے فاصلے کو برقرار رکھنے کے پابند ہیں، اُس کی کمر میں ہاتھ یا اُس کے گلے کو اپنے بازو میں دبوچے چہل قدمی کرنا خلاف قانون ہے، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار یا اُن پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے بلکہ لوگوں کو یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ سماجی دوری کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کی شکایت وہ 311 پر دائر کراسکتے ہیں یا نہیں تو خلاف ورزی کرنے والوں کی تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر آویزاں کردیں، کسی کیش ایوارڈ یا تعریفی سند نامہ کہ موصوف نے فلاں فلاں شخص کے خلاف سماجی دوری کی خلاف ورزی کی شکایت 311 پر درج کرائی تھی لہٰذا مذکورہ شخص سُپر سٹیزن ہے کا اعلان تاہنوز نہیں کیا گیا ہے تاہم امریکا میں شکایت لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں، اِسلئے روزانہ اِس ضمن کی شکایت کی تعداد 5 ہزار سے زائد تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار انفرادی طور پر خلاف ورزی کرنے والوں کی ہے، اجتماعی طور پر خلاف ورزی کرنے والوں کی کہانی کچھ اور ہی ہے، مثلا”گذشتہ ہفتے مین ہٹن میں پولیس نے ریسٹورنٹ کے ایک بیسمنٹ میں چھاپہ مارکر 40 افراد سے زائد افراد کو چرس کا کش لگانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اب آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ افراد کس بُری طرح سماجی دوری کے قانون کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ پولیس حکام کے مطابق نہ صرف 6 فٹ کے فاصلے کی دھجیاں اُڑا دی گئی تھیں بلکہ اُن میں سے بعض افراد ایک دوسرے کی گود میں بھی بیٹھے ہوئے تھے،گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹر اور وکیل بھی شامل تھے، ایک اکا¶نٹنٹ نے اپنی گرل فرینڈ جس سے اُس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی، اُسے بھی وہاں لے کر چلا گیا تھا اور وہ نہ صرف خود چرس کا کش لگارہا تھا بلکہ اپنی نئی نویلی گرل فرینڈ کو بھی کش لگانے پر اصرار کر رہا تھا،شکر اﷲ ہے کہ اُس میں کوئی پاکستانی نہیں تھا، پاکستانی چرس کا کش لگانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن حقہ پینے میں پیش پیش ہیں۔ اِن دنوں ” ری اوپننگ امریکا“ پر بحث و مباحثہ ، لعن طعن عروج پر ہے جیسا کہ ہم سبھی کو معلوم ہے صدر ٹرمپ امریکا کی معاشی سرگرمیوں کو تین قسطوں میں دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیںیہ اور بات ہے کہ اُن کا یہ اقدام بھی دوسرے اقدام کی طرح ڈانوا ڈول کا شکار ہے، مثلا”روزانہ اُن کے پلان میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ کبھی وہ دوسری قسط میں کھولنے والے اداروں کو سفارش آنے پر پہلی قسط میں ڈال دیتے ہیں اور کبھی پہلی قسط میں کھولی جانی والی سرگرمیوں کو سیاسی بنیاد پر اٹھاکر تیسری قسط میں پھینک دیتے ہیں۔قطع نظر اِس کے اوپر سے اُن کا مزید فرمان جاری ہوجاتا ہے، مثلا”گرین کارڈ دوماہ تک اجراءنہ کرنے کا ایگزیکیٹو آرڈر بھی اُن کے ذہن کی سٹیٹ آف دی آرٹ اختراع ہے۔بہر کیف پہلی قسط میں وہ ریسٹورنٹس، سنیما گھر، سپورٹس کے وینیو ، عبادت گاہوں کو کھولنا چاہتے ہیں اسکول غیر معینہ مدت کیلئے بند رہیں گے۔ ہسپتال یا نرسنگ ہوم کی وِزٹ پر پابندی بدستور عائد رہے گی۔سفارش آنے پر جِم کو بھی کھولنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے،دوسری قسط میں سکولوں کو کھولا جائیگا ، جبکہ یوتھ اکٹیوٹیز اور سفروں پر سے پابندیاں اٹھا لیں جائینگی، لوگ پارک میں بھی جاسکیں گے، شاپنگ سینٹر ، تفریحی مقامات اور کسی بھی جگہ جہاں 50 سے زائد افراد کا جمگھٹ نہ ہو ، پر کوئی پابندی عائد نہ ہوگی، شراب خانہ بھی کھول دیا جائیگا،تیسری قسط میں بیمار یا لاغر لوگوں پر سے پابندی ہٹا لی جائینگی لیکن اُنہیں سماجی دوری کے قانون کو مد نظر رکھنا پڑیگا۔ بزنس کے مالکوں کو لامحدود تعداد میں ملازمین رکھنے کی اجازت ہوگی، لوگوں کے بڑے اجتماع ، نرسنگ ہوم یا ہسپتال کے وِزٹ کرنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہ ہوگی لیکن یاد رہے کہ یہ محض صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پلان ہے، جسے وہ صدارتی حکم کے ذریعہ نافذ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ سٹیٹ کے گورنر کو اِسے مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب جارجیا کے گورنر برائین کیمپ نے اپنے سٹیٹ میں بیوٹی پارلر، مساج پارلر اور ہیئر سیلون کھولنے کا حکم دے دیا تو اُنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا ۔ پہلے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں کے ذریعہ اُنہیں باز رکھنے کی کوشش کی ، لیکن جب وہ اِس سے بھی نہ مانے تو اُنہوں نے خود اُن سے گفتگو کی ، اور تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی بزنس کو کھولنا یا نہ کھولنا آپ کے اختیار میں ہے لیکن میں اِس اقدام سے خوش نہیں ہوں۔لاک ڈا¶ن کے خلاف ساری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے، اکٹوسٹ اِسے اپنی بنیادی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں، مشی گن کے باسی اِس سے اتنا زیادہ بیزار ہوگئے تھے کہ اُنہوں نے اِس کے خلاف ہتھیار اٹھا لیا تھااور وہاں کے گورنر کو مجبورا”کچھ پابندیوں سے دستبردار ہونا پڑگیا تھاتاہم پیرس کے ایک جوڑے نے اِسی لاک ڈا¶ن کے دوران ایک پارک میں جاکر رشتہ ازواج کی تقریب منعقد کر ڈالی، نکاح کے لوازمات کو ایک پادری نے انجام دیا تاہم میاں ، بیوی اور پادری سرجیکل ماسک پہنے ہوے تھے۔ نیویارک کے سازش پسند گروہ نے اِس بات کی کوشش کی تھی کہ رمضان کے دوران مقامی حکام اور مسلمانوں کے مابین تصادم کرادیا جائے، تنازع کی وجہ جمعہ اور تراویح کی نماز کی ادائیگی کو بنایا جائے لیکن باشعور مسلمانوں نے اِسے ناکام بنا دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here