پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
2019ءکے وسط میں موجودہ صدر پاکستان نے وزیراعظم پاکستان کی سفارش پر قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف بیرون ملک اثاثہ رکھنے کے الزام میں ایک ریفرنس سپریم جوڈیشنل کونسل جس کے سربراہ خود چیف جسٹس ہی ہیں کو ارسال کیا جس پر کارروائی کا آغاز ہی ہوا تو جسٹس فائز عیسیٰ قاضی نے اس ریفرنس کےخلاف ایک درخواست سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے روبرو پیش کی ،اس وقت جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس تھے، انہوں نے ایک سات جسٹسز (ججوں) پر مشتمل ایک بنچ تشکیل دیا جو کہ جسٹس قاضی عیسیٰ کی درخواست کی کارروائی کے بعد فیصلہ سنانے کا اختیار رکھتی تھی۔ جسٹس قاضی فائز (درخواست گذار) کی استدعا کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کو اس ریفرنس پر کارروائی سے منع کر دیا گیا۔ تاوقت سپریم کورٹ درخواست گزار کی درخواست پر فیصلہ نہیں دیتی بعد میں سات کے بجائے دس رکنی لارجر بنچ بنا دی گئی یہ استدعا بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی ہی تھی، ریاست ادارے کھل کر اب قاضی عیسیٰ کیخلاف سرگرم ہو گئے تھے اور ہمیشہ ایسے موقع پر نئے گمنام درخواست گزار نمودار ہونے لگے، لاہور کے ایک ایسے ہی وکیل صاحب نے تو جسٹس فائز عیسیٰ کی بلوچستان ہائیکورٹ کی تقرری (قاضی فائز عیسیٰ اس سے پہلے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے تھے) 2009ءسے 2014ءتک جسٹس عیسیٰ اس عہدے پر فائز رہے اور 2014ءمیں انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج مقرر کر دیا گیا، اس سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین جسٹس فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ لے آئے تھے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک انتہائی لائق اور ماہر قانون عدالتی افسر ہیں اور تھے جن کو عدلیہ میں آنے سے پہلے اعلیٰ عدالتیں انہیں مشورہ لینے اور رہنمائی کیلئے طلب کرتی رہی ہیں۔ لنکنز ان وہ ادارہ ہے جہاں سے قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو نے بیرسٹری پاس کی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ بھی اسی ادارے کی پیداوار ہیں۔ 1985ءسے اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ لڑتے رہے۔ بین الاقوامی سطح پر کئی بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات لڑتے رہے جج مقرر ہونے سے پہلے موصوف بلوچستان ہائیکورٹ بار کے ممبر سندھ ہائیکورٹ بار کے ممبر اور سپریم کورٹ بار کے ممبر رہ چکے ہیں، ترقی پسند سوچ رکھتے ہیں۔ آزاد عدلیہ کے حامی ہیں ان کا کسی سیاسی جماعت یا دھڑے سے کوئی تعلق نہیں رہا جج مقرر ہونے کے بعد ان کا کبھی کسی میڈیا پر کوئی انٹرویو یا گفتگو نہیں دیکھی گئی کیونکہ وہ اس سوچ کے حامی ہیں کہ جج کو بولنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ انہوں نے جتنے فیصلے کئے میرٹ پر کئے نہ کوئی دباﺅ قبول کیا نہ سفارش یہی طرز عمل اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر رہا تھا، سب سے بڑی فکر جو تحریک انصاف اور جرنیلوں کو کھائے جا رہی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سینیارٹی کے حساب سے 2023ءکی ستمبر میں چیف جسٹس کے عہدہ پر براجمان ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کے انتخابی سال میں اور اس کے بعد اکتوبر 2024ءتک (تیرہ ماہ) تک ان کی مرضی اور منشاءکے پرواہ نہ کرتے ہوئے آزادانہ اور میرٹ پر فیصلے صادر کرینگے۔ یہ بات حکومت کے اکابرین اور حمایتی جرنیلوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک صاف ستھری ساکھ رکھنے والے قابل وکیل اور جج رہے ہیں جنہوں نے اپنے پروفیشنل زندگی میں قانون کے محافظ کے طور پر کام کیا ہے قانون شکنی کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ سالانہ اپنی نجی کمپنی جس میں وکالت کرتے رہے، 75 لاکھ کا سالانہ ٹیکس جمع کراتے رہے ہیں جو کہ صدر علوی صاحب اور عمران خان کیلئے پوری زندگی میں اتنی بڑی رقم پر مشتمل ٹیکس جمع نہیں کرایا ہوگا، وہ شخص بدعنوانی کے ذریعے کیسے کوئی جائیداد بنا سکتا ہے؟
جب سے سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جنرل مشرف کو انکار کیا ہے (اتفاق سے ان کا بھی تعلق بلوچستان سے تھا وہ بھی سپریم کورٹ میں آنے سے پہلے چیف جسٹس بلوچستان تھے) اسٹیبلشمنٹ سے خائف تھے کہ کہیں جسٹس فائز عیسیٰ بھی اسی طرح کا رویہ اختیار نہ کریں!،اس لئے ایک بھونڈا ریفرنس ان کیخلاف لا کر ان کے چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
جی ہاں بالکل عوام چاہتی ہے کہ جیسے تمام سیاستدانوں کا احتساب ہوا ہے ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے مگر یکساں طور پر احتساب ہونا چاہیے۔ قانون سے کوئی بالا تر نہیں ہونا چاہئے لیکن عدلیہ میں چُن چُن کر ایماندار ججوں کا احتساب صرف اس بنیاد پر کہ وہ آپ کی مرضی کے فیصلے کرنے کے بجائے میرٹ پر فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ آئین، قانون اور احتساب کی عمل کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے۔ یہ ہمت و بہادری جس کےساتھ قاضی فائز عیسیٰ اپنے ہی ہم عہدہ ہم عصر ججوں کی عدالت میں بطور درخواست گذار پہنچ کر عدل کا گھنٹہ بجانے پہنچ گئے اس قدر اخلاقی جرا¿ت کسی بدعنوان جج میں نہیں ہو سکتی۔ آج بھی عدلیہ میں جو چند ایماندار اور میرٹ پر فیصلہ کرنے والے منصفین ہیں ،انہی کے دم سے انصاف کا نام آج بھی پاکستان میں سانس لے رہا ہے۔ وتعز ومنتشاءوتذل و منتشاء(عزت و زلت خدا کے ہاتھ میں ہے)
٭٭٭