”پاکستان میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام”

0
86
پیر مکرم الحق

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایک طرف پاکستان شدید مالیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اور دوسری طرف سیاسی تنائو اور ٹکرائو بھی اپنے عروج پر ہے۔ تحریک انصاف اور دوسری طرف ن لیگ اور پی پی پی بشمول گیارہ اور جماعتوں کا اتحاد اس طرح ایک دوسرے سے نبزد آزما ہیں۔ جیسے قبائلی علائقہ کے دو لڑاکا قبیلے ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے ایک دوسرے سے نبزد آزما ہیں۔ اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس سیاسی دنگل کو سجانے کا سہرا عمران خان کے سر ہے لیکن خدا کے واسطے یہ ملک بائیس کروڑ لوگوں کا وطن ہے۔ جن کا مرنا جینا یہاں ہے سیاستدانوں کا کیا ہے انکے تودنیا بھر میں گھر ہیں خاکم بدھن پاکستان تباہ ہوا تو حکمرانوں کو برطانیہ دبئی اور سعودی عرب سمیت کئی پناہ گاہیں میسر ہیں۔ لیکن عام پاکستانیوں کا تو یہی واحد ٹھکانہ اور پناہ گاہ ہے اب تو ڈالر بھی اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ عام پاکستانی کیلئے کسی اور ملک کی ٹکٹ بھی خریدنا ممکن نہیں رہا۔ خدا کے واسطے سنجیدگی سے سوچیں مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کریں ،مسائل کا حل نکالیں ،اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، مانا کہ مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ عمران خان کی انا، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ لیکن انکی جماعت میں بھی سمجھدار اور سنجیدہ رہنما ہیں، وہی اپنے لاڈلے لیڈر کو سمجھا بجھا کے گول میز کانفرنس کیلئے راضی کریں۔ ملک نہ رہیگا تو سیاست کہاں جائیگی، عقل کے ناخن لیں اور تمام مسائل کا حل نکالیں ،بلی کی سوچ مت رکھیں کہ باقی سارے مر جائیں تو سارا دودھ میں پی کر سید ہو جائوں۔ افواج پاکستان کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ بھی کب تک خاموش تماشائی بنی بیٹھے گی۔ یہ ملک کسی ایک رہنما یا سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام بھی بدعنوان سیاستدانوں سے تنگ آچکی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فقطہ سیاست یہی بدعنوان نہیں ہیں۔ یہ بیماری سارے سماج میں پھیل چکی ہیں معاشرے کا ہر طبقہ ہر فرد بلواسطہ یا بلواسطہ اس مرض میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایک چپڑاسی سے لیکر اعلیٰ ترین افسر ساہوکار سرمایہ کار خانبدار اور زمیندار جاگیردار بدعنوانی کے عمل کا حصہ دار بن گیا ہے۔ بجلی کی چوری سے لیکر بینک ڈکیتی تک کوئی قرضہ لیکر واپسی معاف کروا کر بنک لوٹ رہا ہے تو کوئی بنک بندوق کے زور سے لوٹ رہی ہے۔ مفادات کی جنگ بھی زوروں پر جاری ہے پھر یہ سب کچھ کرکے حج اور عمرے بھی چل رہی ہیں۔ زیارتوں پر بھی جارہے اور ایک دوسرے کو دھوکے بھی دیئے جارہے ہیں۔ مساجد بھی بھری ہوئی ہیں اور ہر سطح پر لوٹ مار حقوق کو غضب کرنا اور مار دھاڑ بھی جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ2024ء میں ملک کی آبادی چوبیس کروڑ کو پہنچ جائیگی۔1947ء میں ہندوستان جب دولخت ہوا تو بھی قائداعظم اور گاندھی جی نے بات چیت کی۔ 1970ء میں جب پاکستان بھی جب تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے قائدین نے ایک دوسرے سے بات چیت کی اور کوشش کی کہ ملک کا بٹوارا نہ ہو لیکن بدقسمتی سے معاملات سنوارے نہیں اور ملک ٹوٹ گیا۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ملکی سیاست میں ایک ایسا سیاستدان پیدا ہوا ہے جو مذاکرات کیلئے تیار نہیں نہ ہی اس کی جماعت میں کوئی اور ایسا رہنما موجود ہے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اگر مذاکرات نہیں ہونگے تو ڈیڈ لاک کیسے ختم ہوگا۔ آخر آئی ایم ایف والے بھی تو ہزاروں میل سے آکر پاکستان سے بات چیت کرنے آئے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں موجود ہ سیاستدان اگر ایک دوسرے سے بات چیت کیلئے رضا مند نہیں وہ ایک لیڈر جس نے ملک کو جمود میں مبتلا کیا ہوا ہے وہ فوج اور اس کی لیڈر شپ پر کیچڑ اچھال رہا ہے۔ بڑے بڑے نام لے رہا ہے اب رعونت اتنی کہ فرما رہی ہے کہ نئے چیف کو ابھی تک شک کا فائدہ دیا ہوا ہے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے کیا عمران خان اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ اس نے سب سے ٹکر لے رکھی ہے۔ نہ وہ الیکشن کمیشن کو مانتا ہے نہ حکومت کو خاطر میں لاتا ہے طاقتور ایجنسیوں کے اہم عہدیداروں کو نام کے لئے کہ للکار رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ جس کی ہتھیلی پر ہے بچھڑا کود رہا ہے۔ اردو کی کہاوت ہے کہ ”بچھڑا کوداتا ہے کھونٹے کے زور پر!” تو عمران خان کا کھونٹا کون ہے؟ اب اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس میں زور منافق کا بندوبست تو کرنا پڑیگا۔ یہ خودکش حملہ آور ورنہ سارے ملک کو ڈبا دے گا۔ موصوف جوش خطابت میں فرما رہے ہیں چاروں صوبوں کو اکھٹا رکھنا ہے تو ملک میرے حوالے کردو تمہیں سندھ اور بلوچستان میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بلکہ تمہیں اقتدار دیکر سندھ اور بلوچستان میں مکمل بغاوت پیدا کرنے کے مترادف عمل ہوگا اسکے خوشامدی ساتھی اسکی چاروں صوبوں میں مقبولیت کا جھوٹا راگ الاپ کر اسے گمراہ کرکے اسکو سیاسی شہید بنا کر اس کی قبر پر سیاست کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here