سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! دوہری شہریت کا چرچا بہت پرانا ہے لیکن جب سے نواز شریف کا کرشمہ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی نظر میں کم ہوا اور عمران خان عروج کی جانب پرواز کرنے لگا تو نواز شریف کے صحافتی پیارے سپن ماسٹرز اور ٹی وی ٹاک شوز ایکسپرٹس نے دوہری شہریت رکھنے والے خاص طور پر وہ لوگ جو امریکہ ، برطانیہ اور یورپین ممالک میں مزدوری اور نوکریوں کی غرض سے آباد پاکستانیوں کے خلاف پراپگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ لوگ پاکستانی نہیں ہیں اور ان کا اپنے آبائی وطن سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ انہوں نے امریکہ اور تاجِ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔
قارئین وطن! جب نواز شریف آخری مرتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اقوام متحدہ تشریف لایا تو اس کے استقبال کےلئے میں حلفیہ بتا رہا ہوں کہ 50 یا 60 آدمی تھے اور اس کے مخالف پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی جو اس کی نفرت میں عمران خان کی اپیل پر یو این او کے سامنے جمع ہوئے۔ اس مجمع نے نواز شریف کوسیاسی طور پر جلا کر رکھ دیا ، بس اس دن کے بعد امریکہ میں بسنے والے پاکستانی اچھوت ہو گئے اور پھر دوہری شہریت والوں کے خلاف مہم تیز ہوگئی کہ ہم لوگ پاکستانی نہیں ہیں ۔
قارئین وطن! جی ہاں ہم اس وقت تک پاکستانی ہیں جب تک ہم ان نا م نہاد سیاستدانوں کےلئے جلسے اور جلوس کا اہتمام کرتے رہیں ان کےلئے فنڈز جمع کرتے رہیں ان لوگوں کو تحفہ تحائف دیتے رہیں ہم پاکستانی ہیں۔ راقم امریکہ میں پاکستان مسلم لیگ کا بانی صدر ہے اس وقت ل، ن، ج ، ق کا کوئی وجود نہیں تھا اور اسی نواز شریف نے میری صدارت میں چار جلسے کئے ہیں اور شہباز شریف اور بیشتر رہنما مرحوم اقبال احمد خان ، غلام حیدر وائیں وغیرہ وغیرہ کا شمار نہیں ہے اس وقت ہم پاکستانی تھے اور امریکہ میں ہم کو پاکستان کا سفیر سمجھا جاتا تھا لیکن آج یکدم ہم صرف امریکی ہیں ۔ بے نظیر مرحوم جب دوسری مرتبہ امریکہ تشریف لائی تو اس کو امریکن اسٹیبلشمنٹ کو دکھانا تھا کہ وہ اپنے پاکستانیوں میں کتنی مقبول ہے ۔تو وہ اپنے ساتھ گجرات سے اپنی پارٹی کے ایم این اے نواب زادہ غضنفرگل کو اپنے ساتھ لائی یہ جانتے ہوئے کہ گجرات کے لوگ خاص طور پر گجر برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت زیادہ ہیں۔ نواب زادہ غضنفر گل نے اس وقت کے پیپلز پارٹی امریکہ کے ایک رہنما جاوید چیچی صاحب کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی کی اس کو 500 مرد و زن پلازہ ہوٹل کے باہر محترمہ کے استقبال کےلئے چاہئےں۔ میرا اللہ سچا جانتا ہے کہ جاوید چیچی صاحب نے یہ کارنامہ کر کے دکھایا انہوں نے پورے امریکہ سے گجر برادری کو اکٹھا کیا خواہ ان کا کسی بھی سیاسی جماعت یا نظریہ سے تعلق ہے۔ جاوید نے 700سے اوپر عوام کو جمع کیا لیکن کریڈٹ نواب زادہ غضنفر گل لے گیا اس وقت ہم پاکستانی تھے آج ہم دوہری شہریت والے اچھوت ہیں یہ ہے دوغلہ پن ہماری سیاست کا۔
قارئین وطن! الحمداللہ ہم ہیں پاکستانی،ہمارا ایک ایک سانس پاکستانی ہے ہم امریکہ ، برطانیہ، اور یورپ میں بیٹھ کر اپنے ملک پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں اور پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں براجمان نواز شریف ، آصف زرداری، چوہدری شجاعت، جنرل پرویز مشرف ،جنرل کیانی ، کالم کی تنگ دامنی کی وجہ سے بہت سے نام نہیں لکھ پا رہا لیکن سیکریٹریوں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز جو ملک کو لوٹ کر کنگال کر گئے اور بیرون ملک ایجنسیوں کےلئے کام کرنےوالے غدار ہیں یہ پاکستانی نہیں ہیں ہم پاکستانی ہیں۔ یہ حسین حقانی ، معین قریشی، شوکت عزیز، ایوب خان کا مشہور فنائینس منسٹر شعیب جو پاکستان کی حکومتوں کا حصہ رہے سروں پر تاج شاہی سجایا دولت سمیٹی اور یہاں سے فرار ہوئے اور مختلف ایجنسیوں کے پے رول پر کام شروع کیا اور اس کی زندہ مثال حسین حقانی ہے جو بیک وقت سی آئی اے اور بھارتی را کا ایجنٹ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے آج ہم تمام بیرون ملک آباد پاکستانی جو اپنی مٹی اپنی ماں پاکستان کےلئے فکر مند رہتے ہیں پیچھے رہ جانےوالے لفافائی اینکر اور صحافیوں کی نظر میں اچھوت ہو گئے ہیں اور جب یہ لوگ امریکہ یا برطانیہ آتے ہیں تو انہی دوہری شہریت کے حامل رشتہ داروں اور دوستوں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں ان کو اس دوغلے پن سے باہر نکلنا ہو گا۔
قارئین وطن! پاکستان کے ٹھیکیدار جو ہمیں دوہری شہریت کے حامل سمجھتے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ مادرِ وطن کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ جن کواس وطن نے خاک سے اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا انہوں نے قوم کو لو ٹا، ڈاکے ڈالے ،چوریاں کیں اور ملک سے فرار ہوگئے۔ ان میں سیاست دان افواج کے سربراہ ہیں سول بیوروکریٹ ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ سب سے زیادہ میر جعفر، میر صادق ہم میں پائے جاتے ہیں۔ اب احسن اقبال کیا ہے بقول سابق خارجہ سیکٹری اکرم ذکی کہ یہ شخص سی آئی ای کےلئے کام کر رہا۔ اب کوئی بتائے کہ بیرون ملک مزدوری کر نےوالے کتنے ہیں جو ملک سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ گرین کارڈ یا سٹیزن شپ ہماری مجبوری ہے ہم ان ملکوں کواپنی مزدوری بیچتے ہیں ماں نہیں۔ ماں بیچنے والے اقتدار کے ایوانوں میں ہیں یا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ دوہری شہریت والے کل بھی پاسبان تھے آج بھی پاسبان ہیں پاکستان کے۔ جب یہاں پاکستان کے قومی تہوار منائے جاتے ہیں دیدنی ہوتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کےلئے یہ اسی طرح تڑپتے ہیں جس طرح آپ لوگ ۔ پلیزپلیز ہمیں زلفی بخار یوں اور ورلڈ بینک کے ملازمین سے مت ملائیں جو بریف کیس لے کے جاتے ہیں اور واپس لے کر آتے ہیں۔ پاکستان کل بھی زندہ باد! پاکستان آج بھی زندہ باد۔