حیدر علی
میں تو سمجھتا ہوں کہ دنیا کی ساری بیویاں اعلی قسم کی ڈاکٹر ہوتیں ہیں۔ اُنہیں دوا¶ں کے بارے میں مصدقہ علم ہوتا ہے۔ کون سی دوا کس وقت کھانی چاہیے ، کون سی دوا کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد کھانی چاہیے، اور کون سی دوا ہرگز کھانی ہی نہیں چاہیے، کیونکہ اُن کے کھانے سے انسان جنت الفردوس میں پہنچ جاتا ہے۔ شوہر حضرات اودیات کے سلسلے میں جرک ہوتے ہیں۔ میں خود اُن دوا¶ں کو بھی اﷲ شافی اﷲکافی کرکے نگل لیتا ہوں ، جن کی تاریخ میعاد پانچ سال قبل گزر ہوچکی ہوتیں ہیں۔میعاد کے بندھن کو میں سرمایہ دارانہ ذہنیت کی اختراع سمجھتا ہوں۔ یہ اور بات ہے اُن دوا¶ں کا اثر کچھ آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ مثلا”گذشتہ ہفتے میں دانت کے درد کو ختم ہونےوالی دوا کا استعمال کیا تھا جس کی میعاد بھی ختم ہو چکی تھی۔ تین دِن تک استعمال کے بعد بھی درد ختم نہ ہوا ، تو مجھے کچھ شبہ سا ہوا ، اور میں نے اپنی بیگم کو ازراہ شفقت اِس کی اطلاع دے دی۔ بیویاں ہوتیں ہی ہیں اِن موضوعات پر گفت وشنید کرنے کیلئے یا نہیں تو پالک کے ساگ یا شان مصالحہ کی قیمتیں بتانے کیلئے ۔بہرکیف میری بیگم یہ سنتے ہی کہ دانت کے درد کو ختم کرنے والی دوا کا جو میں نے استعمال کیا تھا ، اُس کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ درد بڑھتا ہی گیا۔ یہ اطلاع اُن کےلئے سر پہ آسمان ٹوٹنے کے مترادف تھی۔ اُنہوں نے فورا”لپک کر کیبنٹ سے دوا نکالی ، اُس کی تاریخ میعاد کو دیکھا، اور پھر دیوانگی کے عالم میں اُس کی بوتل کو زمین پر پٹخ دیا۔ لیکن بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے دِل کی بھڑاس نکالنے کیلئے ایک طویل سی ڈانٹ بھی مجھے پلادی ، اُنہوں نے کہا کہ ”مجھے علم نہ تھا کہ آپ اتنے بڑے احمق ہیں۔ آپ کو یہ بھی علم نہیں کہ دوا کے استعمال سے قبل اُس کی تاریخ میعاد کو بھی دیکھنا لازمی ہوتا ہے۔ جن دوا¶ں کی معینہ مدت ختم ہو جاتی ہے اُن سے کس طرح یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کے سر یا دانت کے درد کو ختم کردے بلکہ تاریخ میعاد کے ختم ہونے والی دوا¶ں کے استعمال سے فائدے کے بجائے آپ کی صحت کیلئے مضر بھی ثابت ہو سکتیں ہیں۔صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی بیگم میلانیا بھی دواﺅں کو ضائع کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کا تو موقف ہے کہ لوگ اُن دواﺅں کو بھی استعمال کر لیا کریں جن کے استعمال سے کسی افاقہ کی امید نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے ہزاروں ڈالر کی ملیریا کے مرض کو ختم کرنے والی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوئن خرید کر رکھ لی تھی، تاکہ جب یہ آ¶ٹ آف سٹاک ہوجائے یا اِسکا مطالبہ آسمان سے باتیں کرنے لگے تو وہ اِسے فروخت کرکے ملین ڈالر کمالیں ۔کچھ لوگوں نے اِسے اِس امید پر خریدلیا کہ چونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِس کی تشہیر کر رہے ہیں، اِسلئے یہ یقینا سیکس ڈرائیو کو ترو تازہ کرنے میں فعال کردار ادا کریگی، بالفاظ دیگر وائیگرا کی نعم البدل ہوگی۔ لیکن شومئی قسمت کہ ڈاکٹروں کی اکثریت نے ہائیڈروکسی کلورو کوئن کو کورونا وائرس کیلئے استعمال کرنے سے شدید پس و پیش کر نے لگے ہیں، بلکہ کچھ ڈاکٹروں کا تجربہ تو یہ ہے کہ اِسکے استعمال سے کورونا وائرس کے مریض کی فوری طور پر ہلاکت واقع ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئی کا بنڈل اُن کے سٹوریج میں ہی پڑا ہوا ہے لیکن وہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وقتاً فوقتاًیہ یاد دہانی کراتی رہتیں ہیں کہ وہ اِس دوا کے فروخت کیلئے بیان داغ دیا کریں تاکہ لوگ اِسے خریدیں۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِس کے حق میں ایک بیان دیتے ہیں تو اِس کی مخالفت میں سینکڑو ں بیان منظر عام پر آجاتے ہیں۔اب میلانیا نے اُنہیں کہا ہے کہ وہ اپنی ریلی میں خود اِسے فروخت کیا کریں تا کہ اُنہیں اِس دوا سے منافع نہیں تو کم از کم اِس کی قیمت خرید ہی واپس آجائے۔اب معلوم ہوا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر ملک کے آئے ہوے تمام سربراہان مملکت اور ماہرین کو ہائیڈروکسی کلورو کوئن کے ایک بکس کو نظر کرم کر دیتے ہیں، اور اُن کی یہ تاکید بھی ہوتی ہے کہ اِسے اپنے ملک میں فروخت کرکے رقم ویسٹرن یونین کے ذریعہ میلانیا کے اکا¶نٹ میں جمع کرادی جائیں۔
ہائیڈروکسی کلوروکوئن کے بارے میں ایک طرف تو بحث و مباحثہ جاری ہے تودوسری جانب یہ شک وشبہ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے کہ آیا یہ دوا جو بھارت سے درآمد ہوئی تھی اصلی ہے یا دونمبر۔ بھارت و پاکستان میں دونمبر اودیات سازی کا کاروبار عروج پر ہے، لہذا کوئی بعید نہیں بھارت سے درآمد کی ہوئی ہائیڈروکسی کلورو کوئن بھی دونمبریہ ہو۔
درحقیقت امریکا میں دوا¶ں کی میعاد تاریخ ختم ہونے کا قانون سال 1979 ءسے لاگو ہوا ، اور تمام دوا ساز کمپنیاں دوا¶ں کی بوتلیں یا پیکٹ پر اُس کی میعادد ختم ہونے کا سٹمپ لگانے کی پابند ہوگئیں۔اِس قانون کا سب سے بڑا استعمال امریکی فوج کے ہسپتالوں اور کیمپوں میں شروع کیا گیا، جہاں بلا امتیاز اُن دوا¶ں جن کی میعاد تاریخ ختم ہوجاتیں تھیں، اُنہیں ناقابل استعمال قرار دے کر ضائع کیا جانے لگا۔ ضائع ہونے والی دوا¶ں کی لاگت بلین آف ڈالرز تک پہنچ جاتیں تھیں۔ تاہم اِس ضمن میں متضاد آراءہیں۔ بعض ریسرچ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ میعاد تاریخ حتم ہوجانے والی دوا¶ں کے بارے میں لوگوں میں بے شمار غلط فہمیاں ہیں اور دوا ساز کمپنیاں محض اپنے منافع کے حصول کیلئے لوگوں کو مغالطے میں مبتلا کردیا ہے، ورنہ حقیقت میں کسی بھی دوا کی میعاد تاریخ ختم ہونے کے 15 سال بعد بھی اِسکا استعمال کیا جاسکتا ہے۔دوسرے گروپ جن میں میری بیگم بھی شامل ہیںاُنکا موقف ہے کہ دوا کی میعاد تاریخ ختم ہونے کے بعد اُن کا استعمال خطرناک اور صحت کیلئے مضر ثابت ہوسکتا ہے۔