کامل احمر
امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بارے میں لکھنے سے پہلے ہم کہتے چلیں کہ صدارت کی مدت صرف چار سال ہے جو بہت کم ہے اگر آپ جائزہ لیں تو مشکل سے ساڑھے تین سال ہی ہے اس لئے کہ آخری چھ ماہ صدارتی امیدوار ایک دوسرے پر جھڑپوں میں نکال دیتے ہیں دوسری اہم بات جو آواز بن رہی ہے اور نوجوانوں میں69فیصدی لوگ اب الیکٹوریل ووٹ کے خلاف ہیں جس کے تحت جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تھے جب کے مخالفین کے پاپولر(عوامی)ووٹوں کی تعداد زیادہ تھی تو پھر عوام کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت جبکہ کچھ لوگ پردے میں رہ کر اپنی پسند کے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کی تعداد270 ہے جو جیت کے لئے کافی ہیں کل ووٹ538ہیں اور پچھلے48سال میں ہماری طرح دوسرے لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔بہرحال یہ قانون ہے اور اس کی پیروی ضروری ہے۔
ہمیشہ انتخابات میں دوہی پارٹیاں لڑتی ہیں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دوسری پارٹیاں بھی ہیں جو چند سو، چند ہزار یا چند لاکھ ووٹ لیتی ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی دوٹرم حکومت کرکے فارغ ہوتی ہے تو ریپبلکن پارٹی دوٹرم کے لئے آجاتی ہے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان کو ایک ہی ٹرم نصیب ہو پچھلے48سالوں میں دو صدر ایسے تھے جو صرف چار سال رہے جمی کارٹر ا ور جارج ڈبلیو بش کے والد ایچ ڈبلیو بش، ان سے پہلے رچرڈنکسن کو انکی صدارت کے دوران پبلی ہی ٹرم میں معذول کر دیا گیا تھا یہ1972کی بات ہے۔
دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے الزام تراشی کرتے ہیں موجود صدر اپنے پچھلے برسوں کے کارنامے بتاتا ہے اور نیا امیدوار ملک اور عوام کی بہتری اور درپیش مسائل کے حل کی بات کرتا ہے۔پچھلی دفعہ کا صدارتی مینڈیٹ تھا میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنا بند فیکٹریز کو کھلوانا، چین کی برآمدات پر ٹیرف لگانا اور اوبامہ کے ہلیتھ کیئر اور دوسرے ملکوں(ایران)سے معاہدوں پر نظرثانی کرنا اور منسوخ کرنا ہم سمجھتے ہیں ٹرمپ نے اپنے سارے وعدے نبھائے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت مان کر ایمبیسی وہاں کھڑی کردی یہ ان کے داماد کا کارنامہ ہے ان کے مخالف بائیڈین صدر بن گئے تو کیا کرینگے؟ہمیں نہیں لگتا وہ کچھ کرینگے۔اس وقت جو امریکہ کو درپیش مسائل ہیں وہ یہاں کا تکلیف دہ لولالنگڑہ ہیلتھ کیئر نظام ہے جو ترقی یافتہ ممالک یورپ اور کناڈہ کے مقابلے میں نہ صرف ناکارہ ہے بلکہ صارفین اور حکومت کے بلین اور بلین ڈالرز کا خسارہ پیونچانے والا نظام ہے۔جو انشورنس کمپنیوں ہسپتالوں اور دوا ساز کمپنیوں کے لابی کے زیراثر ہے یہاں یہ بھی لکھتے چلیں کہ امریکہ کے14بلینسرز جو دنیا بھر میں 20بڑے مالداروں کی صف میں آتے ہیں وہ ہرحال میں اپنی دولت بڑھانے میں لگے ہیں مثال کے طور پرAMAZONکا مالک اب تک270بلین ڈالرز کا مالک ہونے کے ناطے نمبرون ہے یہ اسی صورت میں ہے کہ یہ کمپنی اپنے ملازمین کو مکمل ہیلتھ انشورنس نہ دے کر بلین بلین ڈالرز ہڑپ کرتی ہے۔یہ ہی حالWALMARTکا ہے اور یہ سب کے سب امریکہ کے سیاستدانوں کے دوست ہیں۔خسارے میں امریکی عوام ہیں یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ یہ اور دوسری بڑی کمپنیوں کے مالکان ٹیکس نہ دینے کے برابر دیتے ہیں۔یہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ ہے جسے حالیہ ڈیبیٹ میں صدر صاحب نے غلط قرار دیا تھا کہ میں ہزاروں ڈالرز ٹیکس دے چکا ہوں یہ بھی کہنا تھا کہ میں قانون کے تحت فائدہ اٹھاتا ہوں۔
صدر ٹرمپ کے لئے ہم لکھ چکے ہیں وہ جو ہیں سو ہیں چونکہ وہ بہت بولتے ہیں اور انہیں اپنی کہی ہوئی باتیں یاد نہیں رہتی ہیں اور ہم بھی دوسرے امریکن کی طرح بھول جاتے ہیں کہ جس تیزی سے دنیا میں بالخصوص امریکہ میں منظر بدل رہے ہیں انکا یاد رکھنا مشکل ہی ہے پریس اور ان کے مخالف ان کو جھوٹا کہتے ہیں ایک سیاست دان کو دوسرے سیاست دان کو چھوٹا کہنا زیب نہیں دیتالیکن تہذیب اور شرافت کا دور50سال پہلے ختم ہوچکا ہے تو سیاستدان ایک دوسرے کو گرے الفاظ سے نوازتے ہیں۔پاکستان میں یہ کام عرصہ سے ہورہا ہے ہمیں خدشہ ہے جب سے امریکہ پاکستان کے معاملات میں زیادہ گھسا ہے وہاں کے کلچر کا بھی اثر ہوا ہے جس کی تازہ مثال حالیہ ڈیبیٹ ہے ملاحظہ ہو الفاظوں کا انتخاب کہ پاکستانی سیاستدان خود کو شرافت کا نمونہ سمجھیں گے۔
صدارتی ڈیبیٹ جو30ستمبر کو اوہائیو ریاست کے شہر کلیولینڈ میں ہوئی دونوں امیدواروں کے درمیان جھڑپوں کا ایسا سلسلہ ہوا کہ ماڈیریٹر کریں والس کے لئے ان کو خاموش کرانا مشکل ہوگیا۔گرے ہوئے الفاظوں میں جو بائیڈین نے ٹرمپ کے لئے استعمال کئے اس وقت جب وہ جواب دے رہے تھے۔بیچ بیچ میں حملہ کرتے ہیں مثلاً ٹرمپ مسخرہ ہے اب تک کی تاریخ میں سب سے ناکارہ صدر ہے۔کیا تم اپنی بکواس بند کرو گے۔جب ٹرمپ نے بائیڈین کے بیٹے ہنٹربائیڈین کا تذکرہ یوکرین کے ساتھ گٹھ جوڑ سے کیا یہ بھی کہ وہ ڈرگ لیتا تھا۔ٹرمپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس دفعہ ووٹنگ کے دوران ایسا فراڈ ہوگا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔بائیڈین کو یہ شکایت ہے سپریم کورٹ کے جج کی خالی جگہ کو پُر کرنے کا یہ وقت نہیں وہ نہیں چاہتے کہ سپریم کوٹ میں قدامت پسند(CONSERVATIVE)ججوں کی تعداد چھ ہوجائیگی اگر ٹرمپ کی نامزد کردہ خاتون جج ایمی کونی بیریٹ کی نامزدگی کامیاب ہوگئی۔اور ملک میں لوگوں کواپنی من مانی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی مطلبLAWAND ORDERجو پچھلے کئی ماہ سے امریکہ کے ڈیموکریٹک کنٹرول شہروں کا مسئلہ رہا ہے اور کسی امریکن کو جو قانون کی بالادستی چاہتے ہیں ڈیموکریٹ سے اختلاف ہے۔
اس سے پہلے صدر امریکہ امیگریشن کے مسئلے پر جواب دہ ہیں وہ امیگرنٹ کو لاقانونیت پھیلا رہے ہیں کے حوالے سے اپنی صداری مہم میں ایک نظم سنا چکے ہیںکہ کس طرح ایک شریف بڑھیانے ایک سردی میں ٹھٹرتے اور مرتے ہوئے سانپ پر ترس کھا کر گھر لاکر اسکی دوا دارو کی اور جب وہ صحت مند ہوگیا تو اس نے بڑھیا کو ڈس لیا جب وہ مرنے لگی تو بولی تجھے میں نے نئی زندگی دی اور تو نے اس کا یہ صلہ دیا کہ مجھے ڈس لیا۔سانپ نے پھن پھیلا کر کہا”بےوقوف کیا تجھے نہیں معلوم تھا کہ میں ایک سانپ ہوں اور میری یہ فطرت ہے“ حالیہ ڈیبیٹ کے لئے69فیصد کا کہنا تھا۔”نہایت ہی کوفت آمیز“ اور31%کا کہنا تھا۔تفریح آمیز اور ہمارا کہنا ہے جھوٹ کا پلندہ گرے الفاظ میں کہ اس سے پہلے صدارتی امیدواروں کے مابین کسی مسئلے اور حل کے بغیر بے معنی بحث تھی، اس کے لئے تعلیم یافتہ ہونے کی ضرورت نہیں ،دوسری ڈیبیٹ15اکتوبر کو ہے لیکن صدر ٹرمپ وائرس کاشکار ہیں ہسپتال سے چھٹی ملے گی،جب ہی معلوم ہوگا انتظار کیجئے۔