شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
پاکستان کی اپوزیشن نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اب اس ملک میں افراتفری پھیلانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور حکومت نے بھی یہ سوچ رکھا ہے کہ چوروں، رشوت خوروں اور کرپٹ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی، جس طرح نوازشریف، مولانا فضل الرحمن، مولانا کفایت، کُھل کر پاکستان آرمی اور نیب کےخلاف بول رہے ہیں اور اب تو پھر سے وہی پنجاب کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ سندھ میں سندھی کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ اب تو پھر وہی نعرے لگنا شروع ہو گئے ہیں سندھ میں جو جلوس نکالا گیا وہ پیپلزپارٹی کا جلوس نہیں تھا اس کے پیچھے داراصل جئے سندھ گروپ شامل تھا۔ مہاجر کارڈ کو ختم کر دیا گیا ہے اور جس طرح مہاجروں کو طاقت کے بل بوتے پر ان کی غلطیوں کی وجہ سے آج جو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اب وہ چاہے جتنے جلوس نکال لیں۔ وہ طاقت دوبارہ نہیں پیدا ہو سکتی ،سندھ کے بلکہ خاص طور پر کراچی کے محکموں میں مہاجروں کے نام پر کوئی بھرتی نہیں ہو رہی ہر محکمے میں باہر سے لوگ آرہے ہین اور بھرتی کئے جار ہے ہیں۔ کراچی کی نمائندگی صفر کے برابر ہے۔ کراچی کے حالات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
کراچی کا کاروباری طبقہ اب حکومت کی پالیسیوں پر دلبرداشتہ ہے سوشل میڈیا پر ایک آڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کراچی میں ہر مہینے کے پہلے اتوار کو ایک برنج ہوتا ہے جس میں کراچی کے تمام سینئر بزنس مین حصہ لیتے ہیں اور وہاں تقریریں کرتے ہیں جس میں چیمبر کے صدر اور بزنس مینوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کا لب و لباب یہ ہے کہ سارے لوگوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو کچھ وہ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ نوازشریف کو اشتہاری قرار دینے کے بعد وہ بیرون ملک علاج کی غرض سے جانے کے بعد وہاں سے بیٹھ کر پاکستان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا سب نے سنا ان باتوں پر غور کرتے ہوئے اور پھر مولانا فضل الرحمن نے جو کُھلی دھمکی دی پاکستان کی آرمی کو اس پر ایسوسی ایشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ان تمام خدشات کو پاکستان کی آرمی دور نہیں کرتی تو پھر ابھی سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ آئندہ پاکستان میں کوئی سرمایہ نہیں لگائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ یہ دیکھے بھالے چور، ڈاکو جنہوں نے پاکستان کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور اگر انہی لوگوں کو دوبارہ لانے کی سازش ہو رہی ہے خدشہ ہے کہ کوئی گارنٹی نہیں ہے فیصلہ یہ ہوا ہے کہ بزنس کمیونٹی کے بڑے بڑے صنعت کار اس ملک کو چھوڑ دینگے، باہر سے بھی جتنے انویسٹر ہیں انہوں نے ہاتھ اُٹھا لیا ہے اور کوئی بزنس کرنے کو تیار نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ زندگی میں بھی دوزخ میں رہیں اور مرنے کے بعد بھی وہاں خمیازہ بھگتیں اور وہاں بھی دوزخ مل جائے ایسی زندگی کیوں گزاریں کہ دوبارہ انہی لوگوں کو لانے کی سازشیں ہو رہی ہیں جو واقعی چور ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے کیا مولانا فضل الرحمن کو اپنا لیڈر مانیں، کیا الطاف حسین، نوازشریف کو، آصف علی زرداری کو ہم اپنا لیڈر مان سکتے ہیں کیا محمود خان اچکزئی،ا سفند یار ولی کو اپنا لیڈر مان سکتے ہیں، ذہن میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا یہ ہمارے لیڈر ہوسکتے ہیں۔ اگر پاکستان کی افواج کسی بھی طرح سے انہی لوگوں کے کندھوںُ پر ہاتھ رکھے اور انہی لوگوں کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اور جو غلطیاں فوج کر چکی ہے اب وہ نہیں کرنا چاہتی اب نہیں کرینگے جس کے نتیجے میں ساری انویسٹمنٹ یہاں سے منتقل ہو جائےگی۔ یہ بہت بڑی سازش ہو رہی ہے اور ہمارا بزنس مین بہت فکر مند ہے اور وہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں اگر یہی لوگ دوبارہ لائے گئے تو پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم اس ملک کو چھوڑ دیں جبکہ ہم یہیں دفن ہونا چاہتے ہیں اگر کوئی فیصلہ نہ کیا گیا اور ان سیاستدانوں کے منہ میں لگام نہ ڈالی گئی جس نے کُھلے عام ملک کے عدالتی نظام کی دھجیاں بکھیر رکھ دی ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے پھر سے نعرے لگ رہے ہیں جاگ پنجابی جاگ کے نعرے لگنے شروع ہو گئے ہیں اور لگتا ہے جس طرح مہاجروں کو آپس میں لڑوایا گیا اور ان کی طاقت ختم کر دی گئی اسی طرح اب پنجاب میں بھی یہی طریقہ اپنایا جا رہا ہے اور وہاں بھی گروپ بندیاں ہونی شروع ہو گئی ہیں اور لوگوں کو غداریوں کے سرٹیفیکیٹ دے دیئے گئے ہیں لیکن کتنے غداروں کو سزائیں ملی ہیں اور تمام غدار جو اپنی طبعی موت مر رہے ہیں ان کے علاوہ کتنے غداروں کو لٹکایا گیا یہی وقت ہے کہ ہماری قیادت اور فوج کو سوچنا چاہیے کہ اس ملک میں کس طرح انہیں لایا جا ستکا ہے اگر ہماری فوج جو ہماری محافظ ہے وہی اپنا ہاتھ اٹھا لے تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافذ ہے۔ انڈیا بھی اسی انتظار میں بیٹھا ہے کہ کس طرح پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹ دے اور ہمارے سیاسی لیڈرہان ان کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اس وقت فوری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان قائم و دائم رہے انشاءاللہ ورنہ ہمارے سیاستدان اس کو ڈبو دینگے۔
٭٭٭