جب بھی کسی حکومتی ذمہ دار کی باتیں سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ سابق حکومتوں کا گند صاف کر رہے ہیں۔ تمام محکموں میں بگاڑ ہے۔ ابھی تک انہیں سدھارنے میں لگے ہوئے ہیں۔باالفرض حکمران جماعت اگر دو برس کے عرصے میں سرکاری افسران‘ دفاتر اور محکموں کو درست نہیں کر سکے تو یہ ان میں موجود صلاحیتوں کا فقدان کا اشارہ ہے، ورنہ کسی بھی حکومت کے لئے دو برس کی مدت بہت ہوتی ہے۔گراں فروشوں ‘ ذخیرہ اندوزوں‘ سمگلروں اور بلیک میلروں پر حکومت ابھی تک قابو نہیں پا سکی تو اس میں عوام کا کیا قصور ہے؟ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ہم غذائی اجناس کی قیمتیں کم کرنے کے حوالے سے تمام ریاستی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پالیسی نافذ کریں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو دو برس ہو چکے ہیں۔حکومتی معاملات کو سمجھنے اور ٹیم بنانے کے لئے یہ بہت وقت ہے۔ اتنے عرصے میں تو حکمران اپنی پالیسیاں نافذ کر کے ملک و قوم کی بلندی کے لئے کام کرنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی حکومت دو برس میں نہ تو اپنی پالیسیاں نافذ کر سکی ہے نہ ہی عوامی امنگوں کے مطابق ریلیف فراہم کیا جا سکاہے۔ عوام نے تو کرپٹ‘ چور اور منی لانڈرنگ کرنے والے حکمرانوں کی بجائے انہیں اقتدار سونپا تھا۔ ان مافیاز پر قابو پانا عوام نہیں حکمرانوں کا کام ہے۔ آج بھی حکمران جماعت میں کچھ وزرا ئ علی الاعلان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم مہنگائی پر قابو نہیں پا سکے۔گو اس کا احساس وزیر اعظم عمران خان کو بھی ہے لیکن وہ عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر پا رہے۔ اپوزیشن جماعتیں اب عوام کے دروازے پر جا رہی ہیں لیکن حکمران جماعت کے دامن میں ایساکوئی کارنامہ نہیں، جس کے باعث وہ عوام کو جلسوں میں آنے سے روکے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام اپوزیشن کے جلسوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ عوام کو اپوزیشن کے جلسوں میں جانے سے روکنا مقصود ہے تو اس کے لئے سرکاری مشینری کو حرکت دے کر عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہو گا۔ یہ جانچنا بھی حکومت کا کام ہے کہ ملک میں اشیائ ضروریہ کی قلت ہے یا پھر ذخیرہ اندوزوں نے خود ساختہ مہنگائی کر رکھی ہے۔ حکومت کے پاس اختیارات ہیں، سرکاری مشینری اور ایجنسیاں ہیں۔ جو انہیں پل پل کی خبر دیتی ہیں، اگر حکومت کو ابھی تک اس بات کا بھی ادراک نہیں ہوا تو پھر اسے عوام کے سر نہین مڑھنا چاہیے۔ کئی روز سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور کرپٹ مافیاز کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ چند دن کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے دفاتر سے نکل کر بازاروں اور سڑکوں کا رخ کرتے ہیں اس کے بعد پھر لمبی خاموشی۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یوٹیلیٹی سٹور پر بھی اشیا ضروریہ غائب ہو چکی ہیں۔ حکومت کم از کم یوٹیلیٹی سٹورز پر تو سستے داموں اشیائ ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائے۔ اس سلسلے میں ہر شہر‘ قصبے اور گاﺅں میں یوٹیلیٹی سٹورز کھولے جائیں۔ جن پر اشیائ ضروریہ دال‘ چاول‘ آٹا ‘گھی‘ چینی‘ صابن اور مصالحہ جات پر دل کھول کر سبسڈی دی جائے۔ یوٹیلیٹی سٹور زکو بڑے شہروں میں شفٹوں میں چلایا جائے۔ اور ان میں اشیائے ضرویہ وافر مقدار میں فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں کو قطاروںمیں لگنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ چوکوں‘ چوراہوں اور گلی محلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کی گاڑیاں اشیائ ضروریہ لے کرگشت کریں تاکہ عوام کو گھر کی دہلیز پر ہر چیز آسان نرخوں میں مل سکیں۔اس کے بعد حکومت کو کسی قسم کے احتجاج سے خطرہ ہو گا نہ یہ اپوزیشن کے جلسے جلوس اسے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ٹویٹر پر اعلان کیا کہ ٹائیگر فورس کے جوان بازاروں میں گشت کریں گے جس علاقے میں اشیائ ضروریہ مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہونگی وہ پورٹل پر اپ لوڈ کرینگے ،تو ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔اس وقت حکومت کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ ٹائیگر فورس والا سلسلہ کافی لمبا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو متحرک کریں۔ وہ سرکاری مشینری۔جس میںپرائس کنٹرول کمیٹیاںشامل ہیں، ان سے یہ کام لیں۔ مجسٹریٹس کو بھی دفاتر سے نکال کر بازاروں اور مارکیٹوں میں بھیجا جائے۔ گراں فروشوں کے خلاف موقع پر کارروائی کی جائے۔ اس سے وقت بھی بچے گا اور عوام کو فی الفور ریلیف مل سکے گا۔ حکومت ہر چیز کا ملبہ گراں فروشوں پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ سب سے آسان کام ہے کہ پہلے والی حکومتوں یا پھر سرکاری مشینری کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو معاملے سے الگ کر لیا جائے۔ عوام نے حکومت کو ایک مینڈیٹ دیا تھا، جس کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کر کے ان کے مسائل کوحل کرناتھا۔ حکومت کوفی الفور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہو گا تاکہ عوام نے جو امیدیں حکمران جماعت سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ وہ پوری ہو سکیں اور حکومت بھی اپنے فرائض ادا کر کے عوام کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس عوامی حمایت حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ گندم کی دو کھیپیںکراچی قاسم پورٹ پہنچ چکی ہیں۔
٭٭٭