مجیب ایس لودھی، نیویارک
پاکستان میں جیسے ذاتی مفادات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے لوگوں کے حقوق کو کچلا جاتا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے عوام ہیں جوکہ اپنے حقوق کی پاسداری سے بالکل ناواقف ہیں اور حکمرانوں کی جی حضوری میں اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ ان پر اپنے آپ کو قربان کر دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی نظر میں عوام کی حیثیت دو کوڑی کی سی ہوگئی، سیاستدان چاہے پر لے درجے کے حق تلف ہوں ان کی ایک آواز پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع ہوجاتا ہے ،آج کل کے سیاستدان غریبوں سے بالکل ناواقف ہیں ، ان کے مسائل کے بارے میں بالکل لاعلم ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کبھی عوام کیآواز بلند کی ہی نہیں انھوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کی سیاست کی ، اپوزیشن حکومت کے ان الزامات کا جواب دیتی ہے جوکہ ان پر لگائے جائے جاتے ہیں ، اپوزیشن اپنے اوپر اٹھائے گئے حکومتی سوالا ت کا جواب دینے اور اپنی شخصیت کا دفاع کرنے کے لیے جلسے کرتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اپوزیشن اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی مسائل پر حکومت کو حل تجویز کرے کہ کس طرح روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں ، کس طرح غربت کو کم کیا جائے ، کس طرح عام آدمی تک فوری انصاف کو یقینی بنایا جائے ، کس طرح نجی ملازمین کی حق تلفی کو روکا جائے لیکن مجال ہے کہ کبھی اپوزیشن نے آٹا مہنگا ہونے ، چینی مارکیٹ سے غائب ہونے ، سکولوں کی فیسوں میں اضافے ، نجی ملازمین کی حق تلفیوں کے خلاف آواز بلند کی ہو، وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں ۔اب گوجرانوالہ میں اپوزیشن کے جلسے کے دوران ایک سیاستدان نے غریب کی آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو اس میں بھی ناکام رہا جی ہاں میں بات کرر ہا کہ بلاول بھٹو کی جس نے روزمرہ اشیا کے بھاﺅ بتاتے ہوئے ٹماٹروں کو 200روپے درجن اور انڈے کا بھاﺅ 100روپے کلو بتا دیا ، یہ حال ہے ہماری نوجوان قیادت کا جوکہ ملکی مسائل سے بالکل ناواقف ہے ، بیرون ملک پڑھنے والے ، دولت کی ریل پیل میں زندگی گزارنے والے ان نوجوان سیاستدانوں کو عام شہری کے مسائل سے دور دور واقفیت نہیں ہے تو ایسے حالات میں عام آدمی کس سے بھلائی کی توقع رکھ سکتا ہے۔ نواز شریف اور زرداری کی سیاسی باریوں سے تنگ آئے لوگوں کو امید تھی کہ تیسری جماعت آنے سے ملکی حالات میں تبدیلی آئے گی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا ، وزیراعظم آج بھی کنٹینر پر کھڑے ہوئے ہیں حالانکہ ان کو چاہئے کہ اب حکومتی منصوبوں پر توجہ دیتے ہوئے اپنا کام کریں ، لوگوں کو کچھ کر کے دکھائیں ، سیاسی بیان بازی کی بجائے عام طبقے کے لیے خوشحالی کے منصوبے شروع کریں ، حکومت کا کام اپوزیشن کی الزام تراشیوں کا جواب دینا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ عوام کی خدمت اولین ترجیح ہوتی ہے ، موجودہ حکومتی اراکین اپوزیشن کے الزامات پر دو دو گھنٹو ں کی پریس کانفرنس کر کے وضاحتی بیان دے کر اپوزیشن کو مزید مشہور کر رہے ہیں ، بھئی آپ اپنا کام کریں ، حکومت ہمیشہ اپنے کام سے جواب دیتی ہے ،بیان بازی سے نہیں ۔
اگر پاکستانی عوام واقعہ میں ہی اپنی تقدیر بدلنے کے خواہاں ہیں تو ایسی قیادت کو سامنے لائیں جوکہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کا روڈ میپ پیش کرے ، عام آدمی کو زرداری ، نواز ، شہباز یا دیگر بھجے ، گامے کی گرفتاری سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ان کا کوئی فائدہ ہوگا ، ہماری عوام کو چاہئے کہ آئندہ ایسے سیاستدانوں کو بالکل مسترد کر دیں جوکہ انتخابی جلسوں میں ایک دوسرے کو جیلوں میں بند کرنے اور انتقامی سیاست کی بات کریں بلکہ ایسے افراد کو آگے آنے دیا جائے جس کے انتخابی منشور میں عام آدمی کے لیے کچھ ہو جس کی تمام تر توجہ غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے پر مرکوز ہو ناکہ پجھے ، گامے کی گرفتاری پر تمام وسائل اور توجہ بروئے کارلائی جائے۔
آج حکومت اور اپوزیشن کے کسی سیاستدان کو عام آدمی کے مسائل کا حل تو دور، ان سے واقفیت بھی نہیں ہے ، وہ جانتے ہی نہیں کہ 15ہزار ماہانہ کمانے والا کس طرح 34ہزار کے خرچے پورا کر رہا ہے تو وہ اس کا حل کیا نکالیں گے انہیں تو بس یہ فکر ہے کہ آج کسی مخالف نے میرے رشتہ دار یا مجھ پر کیچڑ اچھالا ہے تو میں اس کو دو گھنٹوں کی پریس کانفرنس سے جواب دوں گا ، پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن اپنے پانچ سال ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور اس کا دفاع کرنے میں نکال دیتے ہیں ، اسی لیے ملک قیام پاکستان سے آج تک مسلسل نازک دور سے گزر رہا ہے۔
٭٭٭