”امریکہ میں صدارتی چناﺅ“

0
166
کامل احمر

 

کامل احمر

صدارتی انتخاب میں14دن باقی ہیں اور ابھی تک عوام یہ نہیں فیصلہ کر پائے ہیں کہ امریکی صدارت کے لئے کسے چنیں۔دونوں امیدوار، جوبائیڈن جو ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد کئے گئے امیدوار ہیں۔انکا نشان گدھا ہے اور امریکہ کی5ریاستوں میں جہاں جہاں نیلا رنگ ملے گا نقشے پر وہ ڈیموکریٹک ہیں ان میں چند ریاستیں ایسی ہیں جو گھنٹہ بہ گھنٹہ کبھی لال اور کبھی نیلی ہو رہی ہیں۔لال رنگ کا مطلب ہے ریپبلکن پارٹی اور رنگ بدلتے رہنے کی وجہ انکا ابھی تک فیصلہ ہونا طے نہیں ہوا ہے۔انہیںSWINGریاست میں شمار کیا جاتا ہے جن میں پچھلے کئی سالوں سے فلوریڈا کے بعد”اوہائیو“ اور اب ”نوادا“ اور ایری زونا بھی سونگ ریاستوں میں شمار ہو رہی ہیںجہاں ٹرمپ تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں یعنی قابو کر رہے ہیں۔
آج بھی صدر ٹرمپ نے پرلیسکاٹ ایری زونا میں اور اتوار کونے وادا میں ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریریں کرکے لوگوں سے جو ان کے استقبال کے لئے جمع تھے اور99.9فی صد سفید فام تھے خوب تالیاں بجوائیں خیال رہے ڈونلڈ ٹرمپ کا حافظہ غضب کا ہے ہمیں یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں کہ وہ جہاں جاتے ہیں اپنی تقریر کے دوران بیسوں افراد کو ناموں سے بلاتے ہیں اور وہ بے تھکان بولتے ہیں انکے بولنے اور تقریروں کے انداز اور الفاظ کو جو وہ استعمال کرتے ہیں۔اسٹیج پر کھڑے مزاحیہ فنکار کا گمان ہوتا ہے وہ مسلسل بائیڈن کوSLOPPY JOEکے نام سے یاد کرتے ہیں جس کے کئی مطلب ہیں جیسے مرہوش آدمی، غافل، نیند میں رہنے والا اور وہ اسکے ساتھ ہی جوبائیڈن کو کھلم کھلا کرپٹ سیاستدان بھی کہتے ہیں۔وہ اب تک یہ بات کوئی دو ہزار4سو21دفعہ دہرا چکے ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ پہلے جارج بش نے صدارتی مہم کے دوران کلنٹن کو جوان سے مقابلہ کر رہے تھے کے لئے کہا تھا ”مجھے نہیں معلوم یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے“یہ ایک تاریخی جملہ ہے اور شاید گوگل کو بھی اس کا پتہ نہیں لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری یادداشت کچھ زیادہ ہی تیز ہے یہاں یہ لکھنے کا مقصد ہے کہ صدارتی انتخابات لڑنے والے دو امیدواروں نے کبھی بھی ایک دوسرے کو ان الفاظ سے نہیں نوازا جن سے صدر ٹرمپ نوازتے ہیں اور لگتا ہے دونوں امیدوار سنجیدہ ہونے کے بجائے مسخرہ پن دکھا رہے ہیں ،صدر ٹرمپ کے مقابلے میں جوبائیڈن جو ہمیشہ ریاست داں رہے ہیں۔پچھلے45سالوں سے زیادہ سینٹر اور8سال تک نائب صدر کے عہدے پر رہے ہیںاور دوران اس عہدے کے انہوں نے صدر اوبامہ کے ساتھ مل کر امن کے لئے اور ہیلتھ کیئر نظام کے لئے جو کچھ کیا تھا صدر ٹرمپ نے آتے ہی اس پر پانی پھیر دیا، ویسے بھی امریکہ میں علاج معالجے کا نظام نہایت ہی پیچیدہ ہے جو ڈاکٹر اور مریض دونوں کے لئے درد سری ہے جس پر دوائیں بنانے والی کمپنیاں دوائیں بیچنے والے اسٹوروں کیChainاور انشورنس کمپنیاں سانپ کی طرح زہر پھیلا رہی ہیں۔جس کی ایک تفصیل ہے اور یہاں اس کا لکھنا بے کار فی الحال سمجھ لیں جہاں امریکہ میں ہیلتھ کیر سسٹم(علاج معالجے کا نظام)کی بات کرنا ہو جو عوام کو آسانی اور بغیر دردسری کے دستیاب ہو وہاں امریکہ زیرو ہے جو نظام یورپ اور کینیڈا میں ہے جہاں عوام پر یہ نظام تلوار بن کر سروں پر نہیں لٹک رہا یہاں کے سیاستدان صدیوں سےSLEEPY JOEبنے ہوئے ہیں یہاں اسکو ہم گوبر کا نام دینگے ہمارے یہ سیاست لالچی دلالوں جنہیں خوبصورت نام دیا گیا ہےLOBBYSTکے اشاروں پر چلتے ہیں کہنے کا مطلب ہے اس معاملے میں نہ تو اوبامہ کے بعد بائیڈن اور ٹرمپ کچھ کرنے کے قابل ہیں یا کر نہیں سکتے بات ایک ہی ہے۔
دوسری طرف بائیڈن بھی ٹرمپ کے لئے ایسے ہی الفاظ چن کر لاتے ہیں خیال رہے یہ جھڑپیں یہ چھیڑ چھاڑ یہ دھینگا مشتی3نومبر تک ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ بائیڈن اپنی تقریروں سے عوام کو متاثر نہیں کر پا رہے اور ہنسانے میں بھی ناکام ہیں جب کہ صدر ٹرمپ جو بے تھکان بولتے ہیں، عمر عیار کی زمبیل لئے گھوم رہے ہیں اور اس میں سے کچھ نہ کچھ نکالتے رہتے ہیں اور اپنے مخالف کو نئے نئے خطاب دیتے رہتے ہیں اور کمالہ ہیرس جو نائب صدارت کی امیدوار ہیں بائیڈن کے ساتھ لفٹ نہیں کراتے۔
اب اگر کوئی ہم سے پوچھے جیتے گا کون تو ہمارا جواب ہوگا۔یہ الیکشن گوروں اور کالوں کے درمیان ہیں جس میں تھرڈ ورلڈ ملکوں کے لوگ شامل ڈیموکریٹ کے ساتھ ہیں۔صدر ٹرمپ جنہوں نے اپنی حرکات سے دنیا بھر میں امریکہ اخلاقی طور پر گرایا ہے کا نعرہ ہے۔
MAKE AMERCA GREAT AGAIN۔”دوبارہ امریکہ کو عظیم بناﺅ“اور جو امریکہ میں مشہور تھاAMERICA DREAMمعروم ہوتا جارہا ہے،پچھلے4سالوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی جو امریکہ کی کم اسرائیل کی زیادہ ہے صدر ٹرمپ کے داماد کے ہاتھوں میں ہے۔جو انکے سینئر مشیر ہیں اور وہ”سیاں بھیوکوتوال موہے ڈرکاہے کا“کے محاورے کو لے کر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو یرغمال بنا کر سودا کر رہے ہیں۔جیسے صدر ٹرمپ امن کی ڈیل کہتے ہیں اسرائیل اور عربوں کے درمیان یہ ڈیل سے زیادہ مصالحت پسندی ہیں جس کا فائدہ امریکہ کو نہیں اسرائیل کو ہوگا۔عراق، لیبیا، شام کی تباہی کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنی تقاریر کے درمیان بارہا اپنے داماد کی تعریف کی ہے اور امریکہ کے لئے عظیم کارنامہ قرار دیا ہے ہمیں غرض اس سے نہیں کہ کون اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے لیکن اس سودے یا ڈیل میں اسرائیل ان کو کیا دے رہا ہے۔ایک امریکن شہری ہونے کے ناطے ہمارے نزدیک امریکہ اول اور اسرائیل یا دوسرا ملک بعد میں ہے۔لیکن یہاں کے تمام سیاستدان اسرائیل اول اور امریکہ دوئم کر چکے ہیں اور عوام بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل انکے ٹیکس ڈالر کا بڑا حصہ ہے ہر سال ڈکارتا ہے اور اسے کچھ کہیں تو غراتا بھی ہے۔ٹرمپ دارالحکومت تل ابیب سے امریکن ایمبیسی کو یروشلم لانے کو عظیم کارنامہ کہتے ہیں اور عوام کی بھرپور تالیوں کا مقصد سمجھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں انکے ساتھ ہیں جب کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ اس لیے دینگے کہ ٹرمپ انکو سر آنکھوں پر بیٹھا رہے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ میں گاﺅں گوٹوں میں گند نہیں ہونے دونگا مطلب جہاں گورے رہتے ہیں وہاں تیزی دنیا کے لوگ نہیں لائے جائینگے۔ابھی تازہ گیلپ بول نے انکشاف کیا ہے ٹرمپ کو53فیصدی کی برتری ہے۔مقابلے میں بائیڈن کمزور امیدوار ہیں اور سیاہ فام کے من پسند لیکن انکا جیتنا مشکل نظر آرہا ہے۔کہ وہ کرتبی صدر ٹرمپ کو ہراسکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here