اور سیاست محبت میں تبدیل ہوگئی!!!

0
213
حیدر علی
حیدر علی

 

حیدر علی

یہ کوئی مذاق نہ تھا کہ سندھ پولیس کے آئی جی مشتاق احمد مہر کو رینجرز اُن کے گھر سے اٹھا کر لے گئی، وہ سلیپنگ سوٹ میں ملبوس تھے ، اُنہوں نے رینجرز سے اپنی وردی پہننے کی درخواست کی، لیکن رینجرز کے بدتمیز اہلکاروں نے اُن کی استدعا کو مسترد کردیا اور کہا کہ وہ وردی اُنہیں زیب نہیں دیتی ہے، بہرکیف جب وہ رینجرز ہیڈ کوارٹر پہنچے تو رینجرز نے اُنہیں اپنی وردی پہننے کو دے دیا تاکہ اُن کے افسران جرنل اور کرنل بُرا نہ مانیں، اُنہیں 18 اکتوبر کی شب ساڑھے بارہ بجے رینجرز ہیڈ کوارٹر لایا گیا تھا اور جب صبح 5بجے رینجرز کا ایک افسر آیا تو اُنہیں اپنے کمرے میں بلایا اور بیٹھنے کا حکم دیا۔ وہ جیسے ہی بیٹھے رینجرز کا افسر کھڑا ہوگیا اور اپنی چھڑی کو فضا میں پروفیشنل جادوگر کی طرح گھماتے ہوئے کہا کہ ” آپ سیاستدانوں کے چمچے بن گئے ہیں، آپ سمجھتے کیوں نہیں ہیں کہ ہم نے کتنے سیاستدانوں کو کتنے اکٹوسٹس کو اِس احاطہ میں لا کر مرغا بنایا ہے۔ کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ بھگوڑا صفدر اعوان فوج کی نوکری کو پٹرول پمپ کے لائسنس فروخت کرنے پر ترجیح دی تھی اور اپنے وطن کی مانگ پر کیچڑ پھینکا تھا۔ آج وہی بدمعاش شخص بابائے قوم کے مزار پر جاکر فاتحہ خوانی کرنے کی بجائے نعرہ بازی شروع کردتیا ہے اگر ہم نے قائد کے مزار پر اِس طرح کے لچے لفنگے کو اپنی مرضی کے مطابق جو کچھ وہ چاہیں کرنے کا موقع دے دیا تو مزار قائد ایک چنڈو خانہ بن جائیگا ہمیں اُس لفنگے کو گرفتار کر کے عدلت کے کٹہرے پر لانا ہے، آپ پلیز اُس کے وارنٹ گرفتاری پر فورا”دستخط کیجئے اور گھر جاکر آرام کیجئے ورنہ یہ رینجرز کا قلعہ آپ کے مقدر کا ٹھکانہ بن جائیگا “ وہ افسر یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا ، چند لمحہ بعد دوسرا افسر کمرے میں اپنے ہاتھ میں سیل فون لے کر داخل ہوا اور مشتاق مہر کو کہا کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اُن سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، آئی جی مشتاق مہر نے فورا©”وزیراعلی سے گفتگو شروع کردی وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مشتاق مہر کو بتایا کہ اُنہوں نے آرمی چیف باجوہ سے بات کی ہے، اور وہ کہا ہے کہ رینجرز کے افسران اُن کا حکم بھی نہیں مانتے ہیں، اِسلئے بہتر ہے کہ وہ وارنٹ گرفتاری پر دستخط کر کے گھر چلے جائیں، مشتاق مہر نے فورا”دستخط کردیا ، اور اپنی شلوار قمیض ہاتھ میں لے کر گھر واپس آگئے لیکن کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری بذات خود بے شمار شکوک و شبہات کی موجب بن گئی ہے یعنی جیسے ہی کیپٹن (ر) صفدر کو اتوار کی رات یہ اطلاع ملی کہ اُنہیں جلد گرفتار کیا جانا ہے تو اُنہوں نے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کردیا، اُنہوں نے کہا کہ” یہ سندھی بڑے ہی سازش پسند ہوتے ہیں ، مہمانوں کو بُلا کر اُنہیں گرفتار کر وادیتے ہیں اگر بلاول کو ذرا برابر بھی مہمان نوازی کی تقدس کا پاس ہوتا تو وہ اُنہیں وزیراعلی ہاو¿س میں رہنے کی پیشکش کر دیتے لیکن اُنہوں نے دیدہ و دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا“ اِس میں کوئی شک نہیں کہ کیپٹن (ر) صفدر کو بلاول بھٹو سے بہت زیادہ حسد و جلن ہے ، خصوصی طور پر جب بلاول مریم نواز سے مسکراتے ہوے گفتگو کرتے ہیں، اُس وقت تو کیپٹن (ر) صفدر کے سینے پر سانپ لوٹنے لگتا ہے،اُنہیں پتا ہے کہ جب وہ دونوں باتیں کرتے ہیں تو گفتگو کا محور سیاست نہیں وعدہ وعید ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بارہا بلاول بھٹو کی زبان سے یہ سنا ہے کہ جب وزیراعظم عمران خان ایک شادی شدہ خاتون سے شادی کر سکتے ہیں تو وہ کیو ں نہیں؟ کیپٹن (ر) صفدر کو یہ اچھی طرح علم ہے کہ بلاول بھٹو اُنہیں مریم نواز کا شوہر سمجھتا ہی نہیں ہے بلکہ ایک ذاتی ملازم مریم نواز کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے بارہا مریم نواز سے اظہار عقیدت جو اظہار محبت سے ذرا کم تھی ،کیا تھا لیکن مریم نے صرف یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے یعنی سندھ کے شہزادے کے تعلقات پنجاب کی شہزادی سے ساحر لدھیانوی کی نظم ” کبھی کبھی میرے دِل میں خیال آتا ہے“ کی ایک کہانی بن گئی ہے اور جس کا انجام سیاست کی بجائے محبت پر اختتام پذیر ہونا ہے۔
یہ بھی ایک مضحکہ خیز امر ہے کہ صفدر اعوان کی گرفتاری میں رینجرز کو خواہ مخواہ ملوث کیا جارہا ہے، جبکہ اُن کی گرفتاری شروع سے آخر تک سندھ پولیس نے روبعمل میں لایا تھا، سندھ پولیس نے صفدر اعوان کو گرفتار کرنے کے ساتھ ہی یہ باور کرادیا تھا کہ اُن کی جان کراچی میں خطرے میں ہے، ایک جانب بلاول بھٹو کیلئے وہ ایک نا پسندیدہ شخص ہیں اور دوسری جانب ایم کیو ایم بھی کراچی میں اُن کی موجودگی کو اپنے دائرہ اختیار میں ایک روڑا سمجھتی ہے اِسلئے بہتر ہے کہ اُنہیں ضمانت ملتے ہی وہ کراچی سے فرار ہوجائیں جب صفدر اعوان نے یہ استفسار کیا کہ ایم کیو ایم کو اُن سے کیا بغض ہے تو پولیس کے افسران نے اُنہیں بتایا کہ ایم کیو ایم نہیں چاہتی کہ تحریک کے بہانے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے۔ سیاستدان اُن کے حلقوں کو قبضہ کر لیں، اِسلئے جو کچھ ہوچکا ہے وہ بہت کچھ ہوچکا ہے اور آئندہ حزب اختلاف کے رہنماو¿ں کو کراچی میں اپنی کرتب بازی کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
پولیس کے اعلیٰ افسروں نے صفدر اعوان کو ڈراتے دھمکاتے ہوے یہ بھی کہا کہ اگر وہ کراچی سے جلد از جلد رخصت نہ ہوئے تو اُنہیں رینجرز کے حوالے کر دیا جائیگا، اور وہ اُن سے اُسی طرح برتاو¿ کرے گی جس طرح گوانتا نامو بے میں امریکی فوجی دہشت گردوں سے کرتی رہی ہیں۔ پولیس کے اعلی افسران نے اشارہ دیتے ہوے کہا کہ اُنہیں اُلٹا لٹکا کر اُن کے سر کو پانی کے ٹب میں دبویا جا سکتا ہے ، یا اُن کے سر کے بال مونڈ دیئے جا سکتے ہیں یہ سنتے ہی کیپٹن (ر) صفدر چیخ چیخ کر رونے لگے تھے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here