یہ بھی عجب انقلاب زمانہ ہے کہ کل تک نیویارک سے شائع ہونے والا روزنامہ نیویارک ٹائمز میئر کے ریس میں جیتنے والے کامیاب امیدوار ظہران ممدانی کے خلاف کیا کیا باتیں نہ اُڑائی تھیں اور آج وہی اخبار اُنہیں کہکشاں سیاست کا ایک درخشاں ستارہ قرار دے رہا ہے۔مذکورہ اخبار کو ذرا آہستہ آہستہ آگے بڑھنا چاہئے تھا ، پہلے یہ تحریر کرنا چاہئے تھا کہ اُن کا اخبار معذرت خواہ ہے کہ ظہران ممدانی کے بارے میں جو اداریہ شائع ہوا تھا اُسے اُن کے ایک متعصب ایڈیٹر نے تحریر کیا تھا۔ دراصل مذکورہ ایڈیٹر کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جہاں بچے اپنی ماں کی پیٹ سے مسلمانوں کے خلاف بغض لے کر پیدا ہوتے ہیں،نیویارک ٹائمز دوسرے مرحلے میں یہ تصیح کر سکتا تھا کہ دراصل اُن کے ایڈیٹر نے جو ظہران ممدانی کے خلاف اداریہ لکھا تھا اُن کی اُس صبح ایک کالے سے مڈبھیڑ ہوگئی تھی اور اُس کالے نے اُن کا گلا دباکر اُن سے اُن کا بٹوہ چھین لیا تھا، آخری مرحلے میں نیویارک ٹائمز وہ کچھ تحریر کرسکتا تھا جو اُس نے پہلے مرحلے میں مکھن پالش لگانے کیلئے کیا ہے۔
جب نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں یہ تحریر کیا تھا کہ ظہران ممدانی ایک بنیاد پرست ہیں، اُن کی سوشلزم کی سوچ امریکا میں نہیں پنپ سکتی ہے، کیونکہ امریکی معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے بعد ازاں مذکورہ اخبار نے تحریر کیا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں سے اُن کا مکان چھین کر دوسروں کو دے دیا جائے ، حقیقت میں یہ ساری باتیں جھوٹ اور من گھڑت پر مبنی ہیں، ظہران ممدانی کا روز اول سے نظریہ یہ رہا ہے کہ نیویارک شہر میں جو مالک مکان اپنی مرضی سے ہر چند عرصے کے بعد کرائے میں اضافہ کرنے کا پروانہ تقسیم کرتے رہتے ہیں اُس پر کسی قسم کی پابندی عائد ہونی چاہیے، یہ ٹھیک ہے کہ ظہران ممدانی نے کورونا وائرس کے دوران جس سے دس لاکھ امریکی ہلاک ہوگئے تھے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جو کرائے دار کرایہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے اُنہیں بلا کرائے کے رہنے کی اجازت دی جائے۔ صرف نیویارک ٹائمز واحد اخبار نہیں تھا جس نے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کے خلاف زہر ہلاہل اُگلا تھا بلکہ نیویارک پوسٹ بھی کسی دوسرے اخبار کے پیچھے نہ تھا. نیویارک پوسٹ لکھتا ہے کہ میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کی حتیٰ المکان یہ کوشش ہے کہ وہ نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کی نفری کو کم سے کم رکھیں،وہ پولیس میں نئی بھرتی کو منجمد کر دینگے، ممدانی ہوشربا کرائے میں اضافے کے بھی خلاف ہیں اور وہ رینٹ گائیڈ لائینز بورڈ کے اراکین کے تعاون اِس کے مزید اضافے پر پابندی عائد کرد ینگے اور اپنے انتخابی وعدے کرائے کو منجمد کر کے پورا کرینگے۔پوسٹ نے مزید لکھا کہ میئر کے امیدوار ظہران ممدانی نے نیویارک کے باسیوں کو اُن کی گروسری کی خریداری میں ریلیف دینے کیلئے ایک نئی اسکیم شروع کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بڑے گروسری اسٹورز حکومت کی جانب سے چلائے جائیں، پوسٹ یہ رائے پیش کرتا ہے اِس طریقہ کار سے گروسری اسٹورز کا نفع بہت حد تک کم ہوجائیگا اور جو زیادہ سے زیادہ ایک سے دو فیصد تک رہیگا، ممدانی چاہتے ہیں کہ یہ سارے اخراجات امیر افراد کے ٹیکس میں اضافہ کرکے پورے کئے جائیں،برنی سینڈرز کا نقطہ نظر کچھ ایسا ہی ہے اور اِسی لئے اُنہوں نے ممدانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن ماہر ین معاشیات نے اِس امور پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیویارک کے ملینئرز فی الحال اکتالیس فیصد نیویارک اسٹیٹ کو ٹیکس ادا کرتے ہیںاور اسٹیٹ اُن بڑی کارپوریشن کے ملازمین سے حاصل کئے ہوے ٹیکس پر بھروسہ کرتی ہے جن پر ممدانی مزید ٹیکس کا بوجھ عائد کرنا چاہتے ہیں، ممدانی اُن مظاہرین کی حمایت کرتے ہیں جو اِنتیفادہ کی تحریک کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں، اُنہوں نے متعدد مرتبہ اِس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا ہے اور کہا کہ وہ نیویارک کا میئر بننا چاہتے ہیں ، تل ابیب کا نہیں، صرف یہی نہیں ظہران ممدانی کی میئر کیلئے پرائمری کا الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی سارے امریکا میں اُن کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی اُمڈ پڑا ہے، اِس نئے رحجان کی پیش رفت ریپبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے شروع کیں ہیں.ٹینیسی کے کانگریس مین اینڈی اوگلیس جن کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے ۔ظہران ممدانی پر بلا جواز یہ الزام لگایا کہ وہ ایک دہشت گرد ہیں اور اُنہوں نے اٹارنی جنرل پام بانڈی سے یہ درخواست کی کہ ممدانی کی سٹیزن شِپ کو معطل کرکے اُنہیں ڈیپورٹ کر دیا جائے، اِسٹیفن مِلر جنہوں نے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کی تخلیق کی ہے ظہران ممدانی کی الیکشن میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جب کوئی قوم مائیگریشن کے قانون کو نظرانداز کردیتی ہے تو اُس کے کیا خوفناک نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ممدانی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے اُن ہی اِسلام فوبیا اور اینٹی مائیگریشن کے حمایتی ہیں جنہوں نے ماضی میں سابق صدر باراک اُوبامہ پر ”برتھر ” کا الزام لگایا تھا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اِس کے بانیوں میں سے ایک تھے۔قطع نظر ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں کے کچھ ڈیموکریٹس بھی اپنے مفاد کیلئے ممدانی پر تنقید کرنے سے باز نہیں رہتے جن میں سے ممدانی کے مخالف میئر ایرک ایڈیمزپیش پیش ہیں،اُنہوں نے ممدانی کے بارے میں کہا کہ وہ سانپ کے تیل کو فروخت کرنے والے ایک سیلز مین ہیںجو منتخب ہونے کیلئے کچھ بھی ممکن ہے وہ کہہ دینگے یا کردینگے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ظہران ممدانی کے بارے میں کہا کہ وہ ایک کمیونسٹ ہیں اور اگر وہ میئر منتخب ہوجاتے ہیں تو یہ امریکا کیلئے ایک خوفناک امر ہوگا۔













