امت مسلمہ کے نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہو چکا ہے، صحابہ کرام اس موقع پر یہ دعا فرماتے اور ایک دوسرے کو سکھایا کرتے تھے۔ ”اے اللہ اس کو ہم پر امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کیساتھ رحمن کی خوشنودی اور شیطان سے حفاظت کیساتھ لائیے”۔ اس دعا کے مندرجات واضح ہیں کہ بندگان رب کریم آغاز محرم پر سال کے ثمرات اور مثبت اعمال و امن کیلئے عہد کرتے رہے ہیںَ روایت یہ بھی ہے کہ فرزندان توحید سانحۂ کربلا سے قبل اس ماہ مبارک کو بہ مسرت گزارتے تھے تاہم یزید لعین کے اقتدار کے حصول کیلئے خانوادۂ رسالت کی شہادتوں کے سبب یہ مقدس و مبارک مہینہ امت مسلمہ کیلئے رنج و الم کا مہینہ قرار پایا ہے بقول حکیم الامت، غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم، نہایت اس کی حسین ہے ابتداء اسماعیل، امت مسلمہ کیلئے یہ مہینہ تا قیامت غم و اندوہ سے ہی عبارت رہے گا۔ واضح رہے کہ روز قیامت کی ودیعت بھی 10 محرم سے ہی منسوب ہے۔ گویا بندگان رب کیلئے یہ ماہ مقدس نیک اعمال، انسانیت اور امن و محبت کے حوالے سے اہم ترین و نجات کا سبب ہے خصوصاً دین مبین کے پاسداران و اتباع کرنے والوں کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو احکامات الٰہی و سیرت النبیۖ کے تابع انجام دیں۔
ہماری یہ تمہید اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ جمعہ کو سوات میں رونما ہونیوالے اس دلخراش واقعہ کے حوالے سے ہے جس میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد طوفانی سیلابی ریلے میں بہہ کر ہلاک ہوئے۔ حالات و واقعات جو بھی رہے، ہلاک ہو جانے والوں کے فیصلے غلط بھی رہے ہوں یا طوفانی ریلے کی تندی و تیزی جتنی بھی ہولناک رہی ہو حقیقت یہ ہے کہ پورا خاندان لقمۂ اجل بن گیا۔ یہ بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موت کا وقت ایک لمحہ بھی نہیں ٹل سکتا لیکن دُکھ اس بات کا ہے کہ اس قیامت خیز اور دلخراش واقعے پر مقامی انتظامیہ، صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے کا کردار کسی بھی طرح نہ انسانیت کا مظہر تھا اور نہ ہی اپنے فرائض منصبی سے انصاف کر کے اس مشکل گھڑی میں پھنسے ہوئوں کو بچانے کے مطابق تھا۔ سانحہ کس طرح پیش آیا، امدادی ٹیمیں سامان کے ہمراہ بروقت کیوں نہ پہنچ سکیں لاشوں کو ایمبولینسز کی جگہ کچرا گاڑیوں سے کیوں لے جایا گیا، یہ ساری تفصیل تو قارئین یقیناً جان ہی چکے ہیں، صوبائی حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ کی بے حسی اور غیر انسانی زبان انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔ گنڈا پور کی دلیل ”میں نے کون سا جا کر ان لوگوں کو تنبو دینا ہے” اس شخص کی منفی فطرت کی عکاسی تو کرتی ہی ہے، صوبے کے وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے اس حقیقت کی بھی غمازی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ان غرض و مفاد کے غلاموں کیلئے عوام محض بھیڑ بکریاں ہی ہیں۔ ہماری یہ سوچ محض گنڈا پور یا کسی ایک صوبائی سربراہ یا ارباب اختیار تک محدود نہیں،، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں، روشن پنجاب کا نعرہ اور عوام کی فلاح کا دعویٰ کرنیوالی مریم نواز کے صوبے میں پاکپتن کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں 16 سے 22 جون تک نومولود سے 5 برس تک کے 20 بچوں کی اموات ہونا ہر گز کوئی معمولی بات نہیں، ان والدین کا کیا حال ہوگا جن کی یہ اولادیں تھیں، متاثرہ خاندانوں کی گریۂ زاری و مطالبے پر ایم ایس کی انکوائری اور متعلقہ ڈاکٹرز و متعلقہ پیرا میڈیکل کو کلیئر کرنے، متعلقہ ادویات و سامان کی تصدیق کیساتھ ٹریننگ و ریفریشر کورس کی تجویز اس امر کی نشاندہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کیا صوبے میں ہونے والے اس شدید ترین سانحے کی جوڈیشل انکوائری شہزادی وزیراعلیٰ کرائیں گی، کچھ نہیں تو منصفانہ تحقیق سے معصوم بچوں کے لواحقین کو صبر و انصاف تو مل سکے گا۔
اسلامی جمہوریہ میں تو انصاف کے پیمانے یکسر بدلے ہوئے زور آوروں، مفاد پرستوں اور آقائو ںکی مرضی پر متعین ہوتے ہیں۔ گزشتہ 76 برسوں سے انصاف اس شعر کی تصویر ہے، بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ تاریخ کو بار بار دہرانے سے گریز کرتے ہوئے تازہ حالات و واقعات اور فیصلوں پر نظر ڈالیں تو اس کے سواء اور کچھ نظر نہیں آتا کہ ریاست، حکومت، سیاست، عدالت و معاشرت غرض ہر حوالے سے انصاف ”مائٹ از رائٹ” پر ہی منحصر ہے۔ غرور و تنفر اور ہم نہیں تو کچھ نہیں کے نشے میں ڈوبے ہوئوں کیلئے ہمارا ایک ہی پیغام ہے۔
ہوا کرتے تھے دارا اور سکندر
نہیں ملتے ہیں اب ان کے نشاں تک
حکمرانی صرف رب کائنات کی ہے اور تا قیامت رہے گی، غرور اللہ کی چادر ہے اور مغرور سے رب کی جنگ ہے۔ ویسے بھی انسان پانی کا بلبلا ہی تو ہے پھر غرور کس چیز کا؟
٭٭٭٭٭٭












