عامر بیگ
ریفرنڈم ہو گیا پاکستان میں گلگت بلتستان کے الیکشن نے تمام بڑی جماعتوں پر واضع کر دیا کہ تحریک انصاف ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کی پورے پاکستان میں ہر فورم پر بھرپور نمائندگی ہے۔ کے پی کے میں کارکردگی کی بنا پر ٹو تھرڈ میجورٹی پنجاب میں کولیشن گورنمنٹ سندھ میں حزب مخالف کی صدارت بلوچستان میں ہم خیال حکومت وفاق کی قومی اسمبلی میں میجورٹی کے ساتھ حکومت سینٹ میں مرضی کا چیئرمین سینٹ مارچ کے سینٹ کے الیکشن میں برتری کے ساتھ جیت یقینی اور اب گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے ،یہ سب کیا ہے اور کیونکر ممکن ہوا یہ چوبیس سال کی ایک طویل اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ سیاست میں کوئی پرچی کوئی تعلق کوئی واسطہ تب تک کارآمد نہیں ہوتا جب تک نیت ٹھیک نہ ہو اور محنت نہ کی جائے بھلے آپ پیسہ پانی کی طرح بہا لو۔ ٹرمپ کے پاس مال و زر کی کمی تھی کیا زرداری اور نواز شریف نے تو مال بنانے میں کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی لیکن آخر کار پکڑے گئے پہلے تو نورا کشتی چلتی تھی، ایک دوسرے پر الزام لگتے تھے ،پیٹ پھاڑنے کی باتیں ہوتی تھیں ،فائلوں پر فائلیں تیار ہوتی جاتی تھیں ،کیسز کا بھی اندراج ہوتا تھا مگر مک مکا ایک دوسرے کی انشورنس یہی کیسز ہی ہوتے تھے کسی کی پکڑ نہیں ہوتی تھی اور اگر فوجی حکومت پکڑ بھی لیتی تو آمر کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے عوض میں این آر او مل جایا کرتا تھا لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے منشور پر ہی آئی ہے اب عمران خان کہتا ہے کہ بھلے میری حکومت رہے یا نہ رہے ،این آر او نہیں دوں گا، نواز شریف نے دو سال انتظار کیا جی ایچ کیو میں ماتھا ٹیکا ،لندن تک چلا گیا لیکن این آر او نہیں مل سکا اور اب مایوس ہو کر بغاوت پر اتر آیا ہے سوائے عبرت کے کچھ نہیں ملنے والا اور وہ بھی دوسروں کے لیے اپنے لیے تو لعنتوں اور ملامتوں کی طشتری بھر لی ہے موصوف نے پاک فوج کے خلاف بیانیہ کو دوسرے صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی غیور عوام نے بھی یکسر مسترد کر دیا ہے لوگوں کا جم غفیر مریم کے جلسوں میں آتا تھا فوج مخالف بیانیہ سنتا ان کی اصلیت دیکھتا ،سمجھتا اور دل ہی دل میں عہد کرتا کہ ووٹ صرف محب وطن پارٹی کو ہی ملے گا۔ بلاول نے درمیانی پوزیشن سنبھالے رکھی مریم اور بلاول کی ون ٹو ون ملاقات کی وائرل ہوتی ہوئی تصویروں سے گلگت بلتستان کی عوام کو یہ پیغام ملا کہ یہ ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں ۔تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم اگر صحیح ہوئی ہوتی تو اسے گلگت بلتستان کے الیکشن میں واضع اکثریت مل سکتی تھی، اب بھی کچھ نہیں بگڑا، اب بھی اگر بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جائے تو سات آزاد ارکان جن میں اکثریت پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کی ہی ہے سے مل کر حکومت بن سکتی ہے ،اس طرح سے ایک عبوری صوبے دو صوبوں اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو جائے گی اور جس طرح کے پی کے میں کارکردگی کی بنا پر ٹو تھرڈ میجورٹی حاصل کی اگلے الیکشن میں بھی کامیابی تحریک انصاف کے قدم چومے گی، یوں پاکستان میں ترقی کا دور دورہ ہوگا انشااللہ ”چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی“
٭٭٭