جنگ یمامہ …. مسلیمہ کذاب کے دعویٰ نبوت !!!

0
416
شمیم سیّد
شمیم سیّد

 

شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن

آج کل جس طرح ایک خبر پھر میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ اگر آپ گوگل پر ریسرچ کریں اور مسلمانوں کے خلیفہ کے بارے میں معلوم کریں تو قادیانی فرقہ کے موجودہ سربراہ کا نام مسلمانوں کے موجودہ خلیفہ کے طور پر لیا جا رہا ہے اور ہم مسلمان اور مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ختم نبوت ہی ہمارا اثاثہ ہے اور ہم لوگ ابھی تک اس مسئلہ میں ہی اُلجھے ہوئے ہیں کہ نبی حیات ہیں یا نعوذ باللہ میں تو لکھ بھی نہیں سکتا لیکن صرف ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر نبی حیات نہ ہوتے تو معراج کے وقت ہمارے نبیﷺ نے مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت کیسے فرمائی اور تمام انبیاءنے ان کے پیچھے نماز کیسے ادا کر لی۔ اس لئے میں جنگ یمامہ کے بارے میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں تاکہ ہماری آنکھیں کھل جائیں۔ مسیلمہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی جس میں 1200 صحابہ کرام شہید ہوئے اور اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے۔ لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے،اہل بدر ہوں یا اہل احد سب یمامہ کا رخ کرو۔ بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے۔ مدینہ میں کوئی نہ رہے حتی کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں۔ صحابہ کرام کہتے ہیں کہ اگر علی المرتضی سیدنا صدیق اکبر کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔ 13 ہزار کے مقابل بنوحنفیہ کے 70000 جنگجو اسلحہ سے لیس کھڑے تھے۔ جنگ یمامہ وہ جنگ تھی جس کے متعلق اہل مدینہ کہتے تھے!بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ پہلے کبھی لڑی نہ بعد میں لڑی۔ اس سے پہلے جتنی جنگیں ہوئیں بدر احد خندق خیبر موتہ وغیرہ صرف 259 صحابہ کرام شہید ہوئے۔ ختم نبوت کے دفاع میں 1200صحابہ کٹے جسموں کے ساتھ مقتل میں پڑے تھے۔ اے مسلمانو! تمہیں پھر بھی ختمِ نبوت کی اہمیت معلوم نہ ہوئی۔ انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس جس کی بہادری کے قصے عرب و عجم میں مشہور تھے اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا۔ *اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برا¿ت کا اظہار کرتا ہوں “چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب وہ اکیلا ہزاروں کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیر و سناں کا زخم نہ لگا ہو۔۔ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی زید بن خطاب جو اسلام لانے میں صف اول میں شامل تھا اس نے مسلمانوں میں آخری خطبہ دیا۔ واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک کہ انہیں شکست نہ دے دوں یا شہید نہ ہو جاو¿ں۔ اے مسلمانو! تمہیں پھر بھی ختم نبوت کی اہمیت معلوم نہ ہوئی۔ بنو حنفیہ کا باغ “حدیقة الرحمان میں اتنا خون بہا کہ اسے حدیقة الموت کہا جانے لگا، اس باغ کی دیواریں مثل قلعہ کے تھیں۔ کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا لشکر ہو اور برائ بن مالک کہے۔ اے مسلمانو! اب ایک ہی راستہ ہے تم مجھے اٹھا کر اس قلعے میں پھینک دو میں تمہارے لئے دروازہ کھولوں گا۔ اس نے قلعہ کی دیوار پر کھڑے ہو کر منکرین ختم نبوت کے اس لشکر جرار کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں چھلانگ لگا دی۔ قیامت تک جو بھی بہادری کا دعوی کرے گا یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا !!!
ایک اکیلا شخص ہزاروں سے لڑ رہا تھا ہاں اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوت کو کاٹ کر رکھ دیا۔ اے مسلمانوں! کاش کہ تم جان لیتے کہ تمہارے اسلاف نے اپنی جانیں دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا دفاع کیا ہے۔ کاش تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان صحابہ کے جذبوں کا علم ہوتا جو ایک مٹھی بھر جماعت کے ساتھ حد نگاہ تک پھیلے لشکر سے ٹکرا گئے۔ قادیانیت ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں نمودار ہے، پس ہر صاحب ایمان کے ذمے ہے کہ وہ اس کے سدباب کی کوششوں میں شریک ہو. اے مسلمانو، تحفظ ختم نبوت کے جہاد میں اپنا اپنا کردار ادا کرو تا کہ قیامت کے دن خاتم النبیین ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔ آخر میں آپ سے التماس ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس داستان عشق وقربانی کو تمام مسلمانوں کے سامنے رکھنے کی غرض سے اس تحریر کو آگے منتقل کرنے کےلئے اپنا کردار ادا کریں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here