کامل احمر
نئے سال2021کا آغاز دنیا بھر میں بڑے جوش وخروش سے کیاگیا،نیویارک میں جہاں نئے سال کی تقریب کا اہتمام مین ہٹن کے وسط ٹائمز اسکوائر میں کیا جاتا تھا اور لاکھوں سیاح اور نیویارکر وہاں جمع ہو کر نئے سال کے گلوب کے گرنے کا انتظار کرتے تھے۔اس دفعہ ہجوم نہیں تھا صرف آرٹسٹ اور گانے والے تھے جن کے اطراف اندھیرہ تھا یہ ہجوم گھروں میں مقید ٹی وی پر نئے سال کی آمد دیکھ رہا تھا۔سوشل میڈیا پر نئے سال کی مبارکباد کا سلسلہ جاری تھا یہ گہما گہمی اور رونقین جو کئی برسوں سے ہو رہی تھیں۔COVID-19 کی نذر ہوچکی تھیں اور ہم پچھلے سال2020کی تباہ کاریوں کا سوچ رہے تھے جس کی زد میں ہمارے کئی دوست،احباب اور پڑوسی آچکے تھے۔ایک اداسی کا سماں تھا اور ہمارے سامنے ہمارے دوست کرنل مقبول ملک کھڑے تھے۔جو اسی سال کے آخر میں ایک بڑے سانحہ سے دو چار ہوئے تھے۔جن کے صاحبزادے اور نوبیاہتا دلہن شادی کے تیسرے دن بہاما میں(BAHAMAS)میں ہنی مون مناتے ہوئے سمندر کی جان لیوا لہروں کے نرغے میں آکر زندگی سے ہاتھ دھو چکے تھے۔نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی کا کوئی فرد ہی ایسا ہوگا جو اس دکھ میں کرنل مقبول ملک کے غم میں شریک نہ ہوجانے والے نوجوان میاں بیوی کیا کیا امنگیں ہونگیں، کیا کیا ارمان ہوںگے اور ان سے جڑے دو گھرانوں کی کیا کیا خوشیاں وابستہ ہونگیں۔سب کو انکے آنے کا بھی انتظار ہوگا۔اس حادثہ کے کچھ دن بعد ہم نے کرنل مقبول ملک سے فون پر بات کی تو لگا وہ حسب معمول بات کر رہے تھے۔دوہی باتیں انہوں نے کہیں اللہ کی مرضی اور وہ اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔ہمارے پاس کوئی الفاظ نہیں تھے جو انکے زخموں پر مرہم کا کام دے سکیں لگ یہ رہا تھا جیسے وہ ہمیں صبر کی تلقین دے رہے ہوں۔ہم ان کے صاحبزادے سے جو کارپوریٹ وکیل تھے کبھی نہیں ملے لیکن نگاہوں کے سامنے وہ منظر جہاں دونوں سمندر کی بپھری لہروں سے لڑ رہے ہونگے برابر چلتا رہتا ہے اور سوچتے ہیں وہ کتنے بہادر لوگ ہوتے ہیں جن کا جوان بچہ یوں اللہ کو پیارا ہو جائے۔اس بچے کے والدین بہن بھائیوں کی کیا کیفیت ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔بس دعا کی جاسکتی ہے اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل۔ایسے تمام لوگ اور ہمارے دوست عظیم ہیں اور ہم سے کہیں طاقتور جوان حادثوں کی زد میں آئے ہو،ہم سوچتے ہیں کیا وقت کے ساتھ ان بچھڑوں کی یادیں ختم ہوتی ہیں۔ایسا ہرگز نہیں یادوں کے لئے ہر دن اور اسکے کئی سالوں بعد کا دن تازہ ہی ہوتا ہے انکے پیارے گھر میں جہاں بھی بیٹھے ہوں لگتا ہے جانے والا دروازہ کھول کر اندر آئے گا اور سلام کرے گا ان کی یاد سے پہلے آنسو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آنکھیں نم ہوتی رہیں گی پھر دل میں کسک بھی اٹھتی ہوگی، ہم کرنل مقبول ملک اور ایسے ہی مضبوط دلوں کے لوگوں کو سلام کرنا پڑتا ہے جنہوں نے بہادری کے ساتھ ان حادثات کا سامنا کیا ہے۔ہر کسی کی زندگی میں موت کا دن لکھا ہوتا ہے کسے کب اور کیسے جانا ہے اس کا تعین اللہ کر چکا ہوتا ہے۔بس وقت بتاتا ہے کب اگر کوئی ضعیف العمر ہو یا عرصہ سے بیمار ہو تکلیف سے دوچار ہو تو انسان تیار ہو جاتا ہے میری اپنی سگی بہن جس مرضی سے دوچار ہوئی تھی اسکے سرہانے بیٹھ کر ہم نے اسے درد سے کراہتے ہوئے دیکھا تو بے بس کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے آغا خان ہسپتال کے نزدیک یہ کوئی اہم بات نہ تھی کہ وہاں پر ڈاکٹر اور دوسرے عملے کے لئے یہ روزمرہ کی بات تھی۔ان کے نزدیک پہلے پیسہ پھر علاج اور اسکے باوجود غفلت اور سرد مہری ہم یہ ہی دعا کرتے تھے کہ اللہ جس میں ہماری بہن کی بہتری ہو۔بالاخر اللہ تعالیٰ نے اسے اس درد اور تکلیف اور ڈاکٹروں کی سرد مہری سے نجات دلا دی اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی اور ہمیں صبر آگیا اب بس جانے والے کی یادیں ہیں۔
پچھلے ماہ ہماری فیملی میں حادثہ ہوا، ہماری شریک حیات کا جواں سال بھانجا بائیسکل چلاتے ہوئے نیچے گرا اس سے پہلے کہ اسے کوئی طبعی امداد ملتی وہ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوچکا تھا ہسپتال لے جانے پر اور اس سے پہلے ایمرجنسی امداد فراہم کی گئی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا اس کی عمر صرف23سال تھی وہ اپنے پیشے میں ماہر قلب تھا، کئی طرح کی تعلیم اور پی ایچ ڈی یافتہ ہونے کے ناطے وہ آنے والے حادثے سے بے خبر تھا۔اسے کسی قسم کا مرض لاحق نہیں تھا کہ دل کا جان لیوا دورہ پڑا۔اور یوں اپنے والدین کا فرمانبردار بچہ دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کا باپ اور فیملی میں سب کا پیارا اپنی بیوی کو رونا چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے جا ملا کہاوت ہے جو سب کا پیارا وہ ہی اللہ کا پیارا، موت یہ سب کچھ نہیں دیکھتی وہ بڑی ظالم ہے وہ لواحقین کو رلانا جانتی ہے خوشیوں سے اس کا واسطہ نہیں میرے برداران ، رسالے صاحب کیا گزری ہوگی اور وہ اس حادثے کو کیسے بھلائیں گے۔شاید کبھی نہیں جب اپنا کوئی جو اپنی جان سے بھی پیارا ہو تو کیا کیفیت ہوتی ہے۔خود کو ان کی جگہ رکھ کر جانا جاسکتا ہے۔اللہ ایسے تمام خاندانوں کو صبرجمیل عطا کرے جن کے پیارے ان سے بچھڑ گئے حادثوں میں۔
جانے والا اپنے پیچھے ان گنت یادیں چھوڑ جاتا ہے ہم سب کے لئے وقت تیزی سے چلا جائیگا۔جیسے2020اپنے پیچھے ہزاروں خاندانوں کو سوگوار کریگا۔صرف امریکہ میں آج کی تاریخ میں تین لاکھ50ہزار اموات ہوچکی ہیں۔COVID-19کی وجہ سے یہ بڑے پیمانے پر حادثاتی اموات ہیں ہم ایسی تمام فیملیز کے غم میں شریک پاتے ہیں۔خود کو اللہ ہمیں اچھے کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔دوسروں کے دکھ درد اور انکی ضروریات میں شریک ہونے کے قابل کرے۔ہمیں اس قابل بنائے اللہ تعالیٰ اور نیت دے دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کی انکے آنسو پونچھنے کی انہیں یاد کرنے کی ہمت دے کہ ہم دوسروں کے لیے اچھا سوچ سکیں یہ ہی زندگی کا مطلب ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے راستے پر چلیں کہ اس دنیا سے جاتے وقت ڈر نہ لگے اور آسانی کے ساتھ جاسکیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ دکھاوے کی شان وشوکت اور تکبر سے بچیں کہ حادثے اور براوقت کہہ کر نہیں آتا!!!۔
٭٭٭